مسافروں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے جہاز
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط نمبر 2)
تحریر ۔محمد اسلم
28 جون کی صبح تقریبا 10 بجے میں فیصل آباد میں اپنے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میرے برطانیہ میں قیام کے دوران بلال نے بہت محنت اور محبت کے ساتھ میرے کمرے کا نقشہ تبدیل کر دیا تھا اور25سال پرانا قالین ، صوفے اور پردے تبدیل کرکے نئے صوفے ، پردے اور قالین بچھا دیاتھا ۔
برطانیہ میں پانچ ہفتے بہت مصروف گزرے حالانکہ جانے سے پہلے میں نے سوچا تھا کہ اس بار وہاں جا کر مکمل آرام کروں گا ۔گزشتہ دوروں(2000سے2013کے دوران) میں تو کتابوں کے لیے انٹرویوز کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس بار ایسا کچھ نہیں کروںگا لیکن شاید صحافیوں کی قسمت میں آرام نہیں ہوتا ۔برطانیہ میں میری صحافیانہ حس نے اس مرتبہ بھی مجھے آرام سے نہ بیٹھنے دیا ۔ اس سفر نامے کا بھی یہی قصہ ہے ۔ اس مرتبہ میرا ارادہ تھا کہ برطانیہ سے واپس آکرکچھ نہیں لکھوں گا لیکن اپنی صحافیانہ حس کی وجہ سے مجبور ہوں اور اپنے مشاہدات اپنے قارئین کیساتھ شیئر کر رہا ہوں۔
بات دور نکل گئی ۔میں اپنی اہلیہ کیساتھ 20مئی کو لاہور سے لندن کے سفر پر روانہ ہوا تو ہماری پہلی منزل دوبئی تھا۔ ہمارا سفر امارات ایئر لائنز کی پرواز کے ذریعے صبح نو بجے شروع ہوا ۔ بوئنگ777/300جہاز بہت آرام دہ تھا ۔ جہاز میں 388 مسافر تھے جو پاکستانی شہری تھے ان میں تقریباً 70 فیصد مرد اور 30 فیصد عورتیں تھیں۔ہم تین گھنٹوں میں دوبئی پہنچے ۔ دوبئی ایئرپورٹ بلا مبالغہ میلوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ایئرپورٹ کی عمارت اور راستے کیا ہیں، یوں سمجھ لیجئے کہ بھول بھلیاں ہیں ۔مختلف ممالک کی پروازیں پکڑنے والے مسافروں کے لیے مختلف راستے ہیں۔ عام آدمی اس وسیع و عریض ایئرپورٹ میں جلدی راستہ تلاش نہیں کر سکتا اور ان بھول بھلیوں میں گم ہو کر ہی رہ جاتا ہے۔ مسافروں کی رہنمائی کے لیے انگلش میں بورڈ تو موجود ہیں لیکن اردو میں بورڈ مجھے کہیں نظر نہیں آئے۔ کاش ان بھلیوں میں منزل کی طرف درست رہنمائی کیلئے اردو میں بھی بورڈ نصب کیے جائیں تو بہت سے مسافروں کا بھلا ہو جائیگا ۔
دوبئی ایئرپورٹ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سینکڑوں دکانیں ہیں اور اشیا بہت مہنگی ہیں ۔میں نے ایک چھوٹی کولڈ ڈرنک لی جو دو ہزار روپے میں ملی۔ اسی طرح پانی کی چھوٹی بوتل کے نرخ 700 روپے تھے اور دکاندار رقم بھی صرف مقامی کرنسی یا پھر ڈالر میں وصول کرتے ہیں، یہاں روپے کوئی نہیں لیتا ۔میں نے سوچا ایئر پورٹ پر نماز ادا کر لوں ۔ دو تین افرادسے مسجد کے بارے میں پوچھ کر جب میں مسجد تک پہنچا تو یہ دیکھ کر دل خراب ہوا کہ ایک کونے پر چھوٹے سے کمرے کو مسجد کا نام دے دیا گیا ہے جس میں خواتین کے لیے نماز ادا کرنے کی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ مجھے خیال آیا کہ دبئی ایئرپورٹ میں جہاں سینکڑوں دکانیں بنائی گئی ہیں، وہیں مسافروں کے لیے چار پانچ مساجد بھی تعمیر کر دی جاتیں تو کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن شاید دوبئی کی حکومت کی ترجیحات میں مسجد کی تعمیر زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔ میرے خیا ل میں ایک کونے میں کمرے کو مسجد کا نام دینے کے بجائے کم از کم ایئرپورٹ کے مرکزی اور با رونق علاقے میں ذرا نمایاں اور اونچی جگہ (چبوترا ٹائپ) کو نماز کے لیے مخصوص کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ اس مسلمان مسافروں کا بھلا ہو گا اور غیر مسلم بھی انہیں نماز پڑھتا دیکھ پائیں گے ۔دوبئی ایئرپورٹ پر چیکنگ کا بہت اچھا نظام ہے۔ امیگریشن اور سکیورٹی پر مسافر کو بہت جلدی کلیئر کر دیا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا اور مسافروں کی لمبی قطاریں لگتی تھیں۔ اب ایئرپورٹ کی انتظامیہ نے بہت سے ڈیسک بنا دیے ہیں جس کی وجہ سے مسافر کو بہت جلدی کلیئر کر دیا جاتا ہے ۔دوبئی ایئرپورٹ پر مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ ملازمین کی اکثریت عربی، پاکستانی اور ہندوستانی باشندوں پر مشتمل ہے البتہ ایئر ہوسٹسزمیں فلپائنی اور چینی خواتین کی اکثریت ہے، دوبئی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا کوئی طیارہ نظر نہیں آیا ۔ ایک زمانے میں پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا۔ ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان کی سر براہی میں پی آئی اے نے دنیا کے ہر خطے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوئے تھے ۔درجن سے زائد ایئر لائنز پی آئی اے کے اشتراک سے چل رہی تھیں جن میں چینی ایئر لائن اور ایئر مالٹا بھی شامل تھی ۔ پی آئی اے کی یہ شہرت 1980 اور 90 کے عشرے تک بھی برقرار رہی۔ اس دور میںپی آئی اے ، جرمن ایئر لائنز LUFTHANSA ، BOACاورPAN AMکو صف اول کی ایئر لائنز سمجھا جاتا تھا ۔ ہر کمال کو زوال ہے ، بد انتظامی ، ضرورت سے زیادہ بھرتیوں اور افسروں کی بد عنوانیوں نے پی آئی اے کو تباہ کر ڈالا اور آج دوبئی کی امارات ایئر لائنز، ابوظہبی کی اتحاد ایئر ویز اور قطر کی قطر ایئر ویز دنیا کی بہترین ایئر لائنز ہیں یہ ایئر لائنز یورپی کمپنیوں کے اشتراک سے بھی کام کرتی ہیں اور یورپی ممالک کی کمپنیاں بہت رغبت سے ان فضائی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک عمل کرتی ہیں۔ دوبئی پہنچنے کے تین گھنٹے بعد ہماری اگلی پرواز لندن کی تھی ۔لندن کا سفر بھی ہم نے بوئنگ 777/300جہاز پر کیا لیکن یہ جہاز کچھ پرانا تھا۔ یہ جہاز بھی مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کرونا کے باعث دو ڈھائی برس تک لوگ اپنے اپنے ملکوں میں تک محدود تھے۔ کرونا کی پابندیاں ہٹتے ہی بیرون ملک سیر کے لیے جانے والوں کی بڑی تعداد نکل کھڑی ہوئی ہے اسی لیے تمام جہاز بھرے ہوئے تھے ۔
مسافروں میں پاکستانی، ہندوستانی، چینی اور کورین وغیرہ 80فیصد تھے اور سفید فام مسافروں کی تعداد کوئی 20 فیصد ہوگی۔ پرواز کے دوران بہت اچھا کھانا دیا گیا۔ جہاز سعودی عرب، ترکی، بلغاریہ اور جرمنی کی فضاؤں میں پرواز کرتا ہوا جب لندن میں اترا تو مقامی وقت کے مطابق شام کے چھ بجے ہوئے تھے، پاکستان اور برطانیہ کے وقت میں چار گھنٹے کا فرق ہے گویا اس وقت پاکستان میں رات کے 10 بجے تھے۔ لندن ایئر پورٹ پر ہم نے تین گھنٹے قیام کیا اور مقامی وقت کے مطابق رات نو بجے لندن سے گلاسگو کیلئے روانہ ہوئے۔ لندن سے گلاسگوجانے والا جہاز بھی مسافروں سے بھرا ہوا تھا مگر فرق یہ تھا کہ دوبئی سے لندن آنے والے مسافروں ایشیائی باشندوں کی تعداد 80 فیصد تھی لیکن اس پرواز میں تقریباًتمام مسافر گورے تھے۔
میرے ساتھ والی نشست پر ایک جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ میاں بیوی 60 کے پیٹے میں تھے اور بہت خوش اخلاق تھے۔ مرد کا نام اولف (ULF) تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اپ سکاٹش شہری ہیں تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ جرمن ہے اور برلن کا رہنے والا ہے ، وہ وہاں ریلوے کو پرائیویٹ طور پر سروس دیتا ہے۔ اولف نے مزید بتایا کہ وہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کیلئے سکاٹ لینڈ جا ر ہے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے دل نشین اور دلکش قدرتی مناظر کے پورے یورپ میں شہرت ہے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ ان مناظر سے لطف اندوز ہو ناچاہتاہے ۔مجھے دل ہی دل میں افسوس ہوا کہ میں نے1960 اور 1970 کے عشرے میں آٹھ برس سکاٹ لینڈ میں گزارے مگر میں ایک بار بھی گلاسگو شہر سے باہر نہیں نکلا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم پاکستانی کمائی کرنے کیلئے برطانیہ گئے تھے اور وہاں ہمارے وقت کا بڑا حصہ ڈیوٹی کرنے میں ہی گزر جاتاتھا اتوار کو چھٹی کے روز بھی ہم اوور ٹائم لگاتے تھے تاکہ زیادہ پیسے کما سکیں۔ اولف نے میرے ساتھ سیلفی بھی بنائی ۔سوا گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز گلاسگو ایئرپورٹ پر اترا تو رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے۔ ایئرپورٹ پر میرا بھتیجا فاروق اور پندرہ سالہ نواسہ حذیفہ لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔(جاری ہے)