ہمارے اُصول غیروں نے اپنائے اور ترقی کی منازل طے کیں
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط نمبر 1)
تحریر ۔ محمد اسلم
برطانیہ میں پانچ ہفتے قیام کے بعد 28جون کو قطر ائیر ویز کی پرواز سے لاہور ایئرپورٹ پہنچا تو مسرت اور اطمینان کی ایک لہر وجود میں دوڑ گئی جس کا تعلق اپنی مٹی کے لمس سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے حالات اچھے نہیں، ہمیں سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے جس کے باعث معیشت بھی زوال پذیر ہے، کاروبار نہیں چل رہے اس کے باوجود وطن کی مٹی کی کشش ہے کہ بیرون ملک جا کر دل وطن واپسی کیلئے مچلتا رہتا ہے۔ وطن پہنچ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ برطانیہ میں قیام کے پانچ ہفتے اور واپسی کا سفر خیریت سے گزرگیا۔
میرا بیٹا بلال اپنے بچوں سمیت مجھے لینے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پر پہنچا ہوا تھا۔ پاکستان واپس آکر سب سے پہلے موسم کا فرق محسوس ہوا۔ برطانیہ میں درجہ حرارت 20سینٹی گریڈ جبکہ پاکستان میں 35 سینٹی گریڈ تھا۔ دوسرا فرق جو سب سے زیادہ محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے وطن میں ہریالی کی بہت شدید کمی ہے ۔ برطانیہ اور پنجاب کا موازنہ کیا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ برطانیہ میں اگر 100 فیصد ہریالی ہے تو پنجاب میں اس کا تناسب صرف پانچ فیصد ہے ۔ برطانیہ میں بالعموم اور سکاٹ لینڈ میں بالخصوص، جس طرف دیکھیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہریالی ہی ہریالی ہے۔خاص طور پرسکاٹ لینڈ میں ہریالی کا تناسب اتنا زیادہ ہے کہ پورا سکاٹ لینڈ ایک بہت بڑا پارک محسوس ہوتا ہے ۔وہاں ہر آبادی میں باقاعدہ پارکوں کے علاوہ جہاں بھی کوئی خالی جگہ یا پلاٹ موجود ہے اس میں شجرکاری کر دی گئی ہے ،آنکھوں کو سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے ۔مرزا غالب نے ایسا ہی کوئی خطہ دیکھ کر کہا ہو گا :
دیکھو اے ساکنان خطہ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
دوسری طرف ہمارے ہاں حالات یہ ہیں کہ جہاں کوئی خالی پلاٹ نظر آیا ، اہل محلہ نے اس میں کوڑا پھینکنا شروع کر یا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے فلتھ ڈپو بنا ڈالا ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہریالی کی فراوانی یا فقدان میں کسی ملک کے امیر یا غریب ہونے کا کوئی کردار نہیں، ایک عام میونسپل ادارہ تو بڑی بات ہے ،میرے خیال میں تو عام شہری ہی اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور اپنے ذوق جمال کا اظہار کریں تو کسی بھی خطے کو ہرا بھرا، سرسبز و شاداب بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پاکستان کی زمین زرخیز ہے اور پانی کی بھی کمی نہیں ،کمی صرف نیت کی ہے ۔ہم خالی مکانات اور خالی جگہوں کو سنوارنے پر یقین ہی نہیں رکھتے ۔ہریالی کے فوائد بارے سب کو معلوم ہے کہ درخت موسم کو معتدل رکھنے کا کام کرتے ہیں درخت آکسیجن کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں لیکن یہ تمام چیزیں تو شعور سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے عوام میں شعور کی سخت کمی ہے ۔28 جون کو میں ایک ہرے بھرے ملک سے جب پاکستان واپس پہنچا تو ہریالی کی کمی مجھے بہت شدت سے محسوس ہوئی اور مجھے یوں لگا کہ پاکستان واپس آکر دل کو تو ٹھنڈک ملی ہے مگر انکھوں کو ٹھنڈک نہیں ملی۔
برطانیہ اور پاکستان میں دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ برطانیہ میں شور کی آلودگی( NOISE POLLUTION ) نام کو نہیں۔وہاں پر ٹریفک قوانین کی مکمل پابندی کی جاتی ہے اور کوئی بے جا ہارن استعمال نہیں کرتا ۔اطراف سے آنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ مین روڈ والوں کو پہلے راستہ دینا ہے لوگ جانتے ہیں کہ ذرا سی بھی قانون شکنی کی تو کیمرے کی آنکھ انہیں دیکھ لے گی اور چالان ان کے گھر پہنچ جائے گا، جرمانہ ادا کرنا ہی ہو گا ۔ قوانین کی مکمل پابندی کے باعث ہی ٹریفک انتہائی تیز رفتاری اسے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔میں 10 برس کے بعد پاکستان سے برطانیہ گیا تھا۔وہاں قیام کے دوران میں نے محسوس کیا کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہیں نکلتے ۔وہاںغلام محمد آباد اور سمن آبادجتنی بڑی آبادی میں بھی چلے جائیں توپوری آبادی میں پانچ دس سے زیادہ لوگ گھروں سے باہر نظر نہیں آئینگے ۔میں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ آخر لوگ گھروں میں کیوں دبکے بیٹھے ہیں ، باہر کیوں نہیں نکلتے؟ میں بازار میں بھی گیا تو وہاں بھی یہی صور تحال تھی ،معلوم ہوا کہ شہر سے باہر بڑے بڑے سٹور بنا دیے گئے ہیں جہاں کچھ رونق ہوتی ہے لیکن اس رونق کو بھی ہم رش نہیں کہہ سکتے۔ہماری گلیوں اور بازاروں میں تو ہر وقت میلے کا سماں ہوتا ہے۔ برطانیہ میںپانچ ہفتوں کے دوران میں مجھے ایسا کوئی منظر نظر نہیں آیا ۔
لاہور سے فیصل آباد کے سفر میں کار میں بیٹھا ہوا میں پاکستان اور برطانیہ میں پائے جانے والے اس فرق پر غور کر رہا تھا کہ بلال نے پوچھا کہ آپ کے پانچ ہفتے کیسے گزرے۔ میں نے کہا کہ برطانیہ کا سفر اور قیام بہت اچھا رہا ۔ اپنے بہن بھائیوں،عزیز و اقارب اور دوستوں سے ملاقاتوں کے علاوہ پچھلے دس برسوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ، ان کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا
برطانیہ میں قیام کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستانی تارکین وطن اپنے وطن کے حالات کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ سیاسی قیادت آپس میں مل بیٹھ کر پاکستان کے معاملات بہتر بنا سکتی ہے۔ ملکی آئین اور قانون پر عمل کرتے ہوئے اگرایک دوسرے کو راستہ دیا جائے تو ملکی حالات میں مثبت تبدیلی لا ناممکن ہے ۔ دوسری اہم بات میں نے یہ محسوس کی کہ 1980 اور 1990کے عشرے میں پیدا ہونے والی تارکین وطن کی اولاد اپنی زبان سے بہت دور ہو جا چکی ہے اور یہ ناقابل تردید سماجی حقیقت ہے کہ زبان ہی وہ قوت ہے جو اپ کو اپنے مذہب اور وطن سے جوڑ کر رکھتی ہے۔ تارکین وطن کی تیسری نسل کو دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا پاکستان سے کوئی رشتہ ہے، ان نوجوانوں کی زبان کے علاوہ لباس بھی بدل گیا ہے۔ ان بچوں کے باپ دادا نے 1960 اور 1970 کے عشروں میں برطانیہ جاکر محنت مزدوری کا ا ٓغاز کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیسری نسل برطانیہ کے ماحول میں مکمل طور پر رچ بس چکی ہے۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کی اس نسل کا پاکستان لوٹ آنا آسان نہیں ہے۔
برطانیہ کی سہولتیں ، ہریالی ، تیز رفتار ٹریفک ، قوانین کی پابندی اور ترقی قابل تعریف ضرور ہے مگر سچ یہ ہے کہ برطانیہ سمیت سفید فام دنیا نے قانون کی پابندی، صفائی اور میرٹ جیسے اصول ہم مسلمانوں سے سیکھے اوران پر چلتے ہوئے اپنے ممالک کو جنت نظیر بنایا اور ترقی کا سفر بھی طے کیا ۔ان سب باتوں کے باوجودآج کے مسلمانوں کو اہل فرنگ سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں ، اسے نماز ، روزے ، عمرے اور حج کے ساتھ حقوق العباد اور اسلامی قوانین کی طرف لوٹنا چاہیے تاکہ مسلمانوں کا سنہری دور واپس آجائے ۔ اقبال نے بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں یورپ کے سفر میں اس حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے بعد ہی کہا تھا :
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
(جاری ہے)