سعودی عرب کی پاکستان کو 2 ارب ڈالر دینے کی یقین دہانی، آئی ایم ایف نے تصدیق کرلی

اسلام آباد: سعودی عرب پاکستان کو 2؍ ارب ڈالرز دے گا جس کی تصدیق آئی ایم ایف نے بھی کردی ہے تاہم متحدہ عرب امارات سے فنڈنگ کا بھی انتظار ہے اور اضافی ایک ارب ڈالر کے ڈیپازٹس پر نظریں مرکوز ہیں ۔

ادھر فیول پر سبسڈی آئی ایم ایف سے معاہدے میں رکاوٹ ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ سستا پٹرول تجویز ختم کرنا ہوگی جبکہ حکومت نے تاحال کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی ۔

دوسری جانب وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے شرائط پوری ہونے پر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے پا جائے گا۔

ورلڈ بینک نے پاکستان کی ڈیولپمنٹ، حالیہ معاشی ترقی اور اس سے متعلق خدشات پر اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو خرچہ کم کرنا ہے تو بجلی اور پٹرول پر سبسڈی ختم کرے، پاکستان ’پائیدار نمو‘ معاشی ریفارمز کے ذریعے ہی حاصل کرسکتا ہے، دہری وزارتوں اور محکموں کو برقرار رکھنے کے علاوہ صوبائی نوعیت کے منصوبوں کو وفاق کے تحت وسائل سے مکمل کرنے سے سالانہ 800؍ ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سعودی عرب سے ڈپازٹس کی صورت میں اضافی دو ارب ڈالرز ملنے کے امکانات کے بعد پاکستان کو اب متحدہ عرب امارات سے مزید ایک ارب ڈالرز ملنے کے حوالے سے جواب کا انتظار ہے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہوسکے۔

سینئر سرکاری عہدیداروں نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو بتایا ہے کہ انہیں سعودی عرب سے دو ارب ڈالرز کے حوالےسے یقین دہانی موصول ہوگئی ہے اور آئی ایم ایف اس یقین دہانی سے مطمئن ہے۔

توقع ہے کہ سعودی حکام اس ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر باضابطہ اعلان کریں گے۔

سعودی عرب میں پاکستانی سفیر نے اشارتاً کہا تھا کہ مشکل حالات میں سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور انشاء اللہ جلد اچھی خبر سامنے آئے گی۔

اب تمام تر نظریں متحدہ عرب امارات پر مرکوز ہیں تاکہ اضافی ایک ارب ڈالرز کے ڈپازٹس مل سکیں، جس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا تاہم، معاہدے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ ابھی باقی ہے۔

وزارت پٹرولیم نے وزیراعظم آفس کے ساتھ مشاورت کے بعد اعلان کیا تھا کہ موٹر سائیکل سواروں اور 800؍ سی سی تک کی کاروں کیلئے فیول سبسڈی دی جائے گی۔ تاہم، فی الحال اس تجویز کو ختم کرنا پڑے گا۔

ذرائع کے مطابق، حکومت نے اس حوالےسے اب تک کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی۔

ماضی میں وزیر خزانہ شوکت ترین کے دور میں بھی ایسی ہی اسکیموں پر غور کیا گیا تھا حتیٰ کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 48؍ ارب بجٹ میں مختص کرکے سستہ پیٹرول اسکیم شروع کرنے کی باتیں کی تھیں لیکن عمل نہیں ہوا۔

توقع ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک حکام کے ساتھ آئندہ مذاکرات کریں گے لیکن اب تک اس حوالےسے مذاکرات کی حتمی تاریخ سامنے نہیں آئی۔

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان توسیعی فنڈ فیسلٹی کے حوالے سے مذاکرات کس طرح آگے بڑھتے ہیں حالانکہ 9واں جائزہ مکمل ہو چکا ہے جبکہ یہ توسیع پروگرام 30؍ جون 2023ء کو ختم ہو رہا ہے۔

امکان ہے کہ پروگرام کو تین سے 6؍ ماہ کیلئے آگے بڑھایا جائے گا لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

ادھر ورلڈ بینک نے پاکستان کی ڈیولپمنٹ، حالیہ معاشی ترقی اور اس سے متعلق خدشات پر اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی رجعت پسندانہ سبسڈیز کی فراہمی کو کم کرکے اخرجات کم کیے جائیں، پاکستان ’پائیدار نمو‘معاشی ریفارمز کے ذریعے ہی حاصل کرسکتا ہے۔

ورلڈ بینک کے ایک تخمینے کے مطابق ایک جیسی دہری وزارتوں اور محکموں کو برقرار رکھنے کے علاو ہ صوبائی نوعیت کے منصوبوں کو وفاق کے تحت وسائل سے مکمل کرنے سے سالانہ 800؍ ارب روپے کا نقصان ہورہاہے جس کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو برقرار رکھا گیاہے جبکہ صوبائی نوعیت کے منصوبے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے مکمل کیے جارہے ہیں جو وفاقی بجٹ سے مختص ہے۔

ورلڈ بینک کے ماہر اقتصادیات کے مطابق مذکورہ نقصان جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد بھی سالانہ بنیادوں پر نقصانات کا تخمینہ 320؍ ارب روپے لگایاگیا ہے۔

ایچ ای سی جاری رکھنے سے سالانہ 70؍ ارب اور صوبائی نوعیت کےمنصوبوں پی ایس ڈی پی کے تحت مکمل کرنے سے سالانہ 315؍ ارب کے نقصانات کا تخمینہ ہے۔

ملازمین کی تنخواہوں، پنشن، خرچے، زرتلافی اور سود کی مد میں ادائیگیاں اخراجات کا 70؍ فیصد اٹھارویں آئینی ترمیم کے باوجود اکثر ہونےوالے اخراجات جو صوبائی نوعیت کے ہوتے ہیں وہ بھی وفاق برداشت کرتا ہے ۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کفایت شعاری سے حکومتی اسٹاف اور آپریشنل لاگت کم کریں.

اعلیٰ اور درمیانے درجے کی بھرتیاں اور اجرتیں منجمد کریں جبکہ نچلے سطح پر ضرورت کے مطابق میانہ روی سے اجرتیں بڑھائیں اور اصلاحات سے پنشن اخراجات کم کریں۔