سابق کرکٹر سرفراز نواز سے تفصیلی گفتگو
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط نمبر25)
تحریر: محمد اسلم
13 جون کی صبح ہم نے لندن کے علاقے ”HARROW ”میں محمد خلیل کے گھر چنے پراٹھے کا ناشتہ کیا اور انہیں خدا حافظ کہہ کر 10 بجے وہاں سے روانہ ہوئے ۔ ہماری منزل مشہور زمانہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس تھے جہاں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف خود ساختہ جلا وطنی کے شب و روز گزار رہے تھے۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سینٹرل لندن میں ہیں ۔”ہارو” (HARROW)سے نواز شریف کے گھر کا فاصلہ 15 میل ہے لیکن سٹی سینٹر میں سڑکوں پر بہت ٹریفک ہوتی ہے، پارکنگ کے لیے بھی آسانی سے جگہ نہیں ملتی۔ ہمیں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس تک پہنچنے میں پونے دو گھنٹے لگ گئے اور ہم پونے 12 بجے اس مقام پر پہنچے۔ میں نے پاکستان سے روانہ ہونے سے ایک ماہ قبل میاں نواز شریف کو لندن کے پتے پر رجسٹرڈ خط بھجوایا تھا جس پر 1200 روپے کے ٹکٹ بھی لگے تھے۔ میں نے اپنے دورہ لندن کے بارے میں لکھتے ہوئے میاں نواز شریف سے ملاقات کا وقت مانگا تھا ، خط میں اپنا گلاسگو کا ایڈریس بھی دے دیا تھا تاکہ نواز شریف مناسب سمجھیں تو اس پتے پر جواب ارسال کر دیں لیکن میاں نواز شریف کی طرف سے پاکستان یا گلاسگو کے ایڈریس پر کوئی جواب نہیں آیا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ایون فیلڈ میں ایسا کیا ہے جس کی خاطر میاں نواز شریف نے اپنی وزارت عظمی قربان کر دی۔ میرا بھتیجا محمد شعیب بھی ہمارے ساتھ تھا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پہنچتے ہی وہ جذباتی ہو گیا اور اس نے ”چور،چور” کے نعرے لگانے شروع کر دیے میں نے اسے ٹھنڈا ہونے کو کہا۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سات آٹھ منزلہ عمارت ہے۔ فرنٹ پر پانچ چھ دکانیں ہیں اور عمارت کا داخلی دروازہ بھی ہے لیکن شریف فیملی یہ دروازہ استعمال نہیں کرتی بلکہ آمدورفت کے لیے تقریبا 35 فٹ چوڑی عقبی گلی کا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ عقبی دروازے کے ساتھ عموماً دو آدمی کھڑے تو رہتے ہیں لیکن وہ کسی کی بات نہیں سنتے ۔ ہم نے گلی سے دیکھا تو عقبی گیٹ کے اندر کار کھڑی ہوئی تھی اور باہر ایک آدمی موجود تھا ۔ہم نے اس کو سارے معاملے سے باخبر کیا لیکن وہ بولا کہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ گلی میں ایک ادھیڑ عمر انگریز موجود تھا ،اس سے پوچھا تو اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اس ماحول سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میاں نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر آئے دن پاکستانیوں کے احتجاجی مظاہروں کے باعث یہ احتیاط کی گئی ہے ۔اس مشاہدے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کی نسبت جہانگیر ترین نے سمجھدار ی کا ثبوت دیا اور لندن کے مرکزی علاقے سے باہر تقریباً ڈیڑھ مربع اراضی لے کر فارم ہاؤس بنایا جہاں کوئی آتا جاتا ہی نہیں ۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو دیکھنے کے بعد میری یہ رائے ہے کہ نواز شریف نے بہت بڑی غلطی کی۔ یہ جائیداد پاکستانی کرنسی میں چند ارب روپے کی ہوگی۔ نواز شریف نے اس جائیداد کی خاطر اقتدار چھوڑا، نا اہلی کو گلے لگایا اور بالآخر جلا وطنی تک جاپہنچے۔ ہم نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی تصویریں اور ویڈیو بنائی۔ نواز شریف کے گھر پہنچ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور خیال آیا کہ ہمیں حسین نواز کے آفس جانا چاہیے تھا ۔ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف تھے لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی جیسے اہم معا ملے سمیت پاکستان کے تمام سیاسی فیصلے سات سمندر پار ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ہی سے کیے جا رہے تھے۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس دیکھنے کے بعد ہماری اگلی منزل لندن میں” ٹوٹن ”(TOOTAN)کا علاقہ تھا جہاں سابق ٹیسٹ کرکٹر اور ریورس سوئنگ کے موجد سرفراز نواز رہتے ہیں۔ میں نے مئی کے اوائل میں پاکستان سے سرفراز نواز پہ فون پر رابطہ کر کے ملاقات کا وقت لیا ہواتھا۔ہم بروقت ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ لمبے قد اور لمبے بالوں والے سرفراز نواز کی ٹانگوں میں تکلیف تھی اور وہ واکر کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ وہ پرتپاک طریقے سے ہمیں ملے۔ سرفراز نواز نے 1979 میں آسٹریلیا کے خلاف میلورن میں یادگار باولنگ سپیل کیا تھا اور ایک رن کے عوض سات وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کو ہارا ہوا میچ جتوا دیا تھا، انہوں نے اس اننگز میں نو وکٹیں حاصل کی تھیں جو پاکستانی کھلاڑی کی طرف سے ایک اننگز میں بہترین بالنگ کا ریکارڈ ہے۔
سرفراز نواز سے تفصیلی گفتگو ہوئی، وہ کھلے ڈلے مزاج کے دبنگ آدمی ہیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔اپنی اسی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں سچ بولتا ہوں اس لیے مجھے وطن چھوڑنا پڑا۔ پاکستان میں مجھے قتل کی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں جس کی وجہ سے میں نے 2018 میں پاکستان کو خیرباد کہا اور لندن میں آباد ہو گیا۔میں نے سرفراز نواز سے ان کے خاندانی پس منظر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق لاہور کے ارائیں خاندان سے ہے اور ان کا خاندان کئی صدیوں سے لاہور میں مقیم ہے۔ انہوں نے 1969سے 1984تک ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 177 وکٹیں حاصل کیں۔ سرفراز نواز کی سیاسی وابستگی پاکستان پیپلز پارٹی سے رہی ہے ، وہ ماضی میں رکن صوبائی اسمبلی اور بے نظیر بھٹو کی حکومت میں مشیر برائے سپورٹس رہ چکے ہیں۔ انہوں نے سیاسی امور پر بھی گفتگو کی اور تحریک انصاف کے چیئرمین ،سابق وزیراعظم عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا دور اقتدار ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ عمران خان دوبارہ برسر اقتدار آگئے تو ملک کا مزید نقصان کریں گے۔میں نے سوال کیا کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی تو عمران خان کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں تو سرفراز نواز نے جواب دیا کہ برطانیہ میں عمران خان کی غیر معمولی مقبولیت باثر افراد اور میڈیا کی مر ہون منت ہے، در اصل برطانیہ کے مقتدر طبقات عمران خان سے اپنے مفادات کے لیے کام لے رہے ہیں۔ انہوں نے کرکٹ ٹیم کی موجودہ کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بار بار تبدیلیوں سے مثبت نتیجہ حاصل کرنا ممکن نہیں ، پاکستان کے پاس آٹھ سے دس اچھے فاسٹ بالر موجود ہیں جن میں سے محمد حسنین ، عباس ، زمان ، وسیم جونیئر ، احسان اللہ ،عامر جمال ، نسیم شاہ اور شاہنواز دھانی خصوصاً قابل ذکر ہیں ، ہم ان میں سے جس کوبھی موقع دیتے اسے دو تین میچ کھلا کر باہر بٹھا دیتے ہیں جو درست پالیسی نہیں ، شاہین آفریدی کے علاوہ ٹیم کسی فاسٹ بالر کی جگہ پکی نہیں ، جب تک کھلاڑی کو یہ اعتماد نہ ہو کہ ٹیم میں اس کی جگہ پکی ہے ، وہ اچھی کارکردگی کیسے دکھا سکتا ہے ۔
سرفراز نواز نے ریورس سوئنگ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس فن میں عمران خان میرے شاگرد ہیں،میں نے انہیں ریورس سوئنگ کرنے کا ہنر سکھایا اس کے بعد وسیم اکرم اور وقار یونس نے ان سے یہ فن سیکھا اور دنیا بھر میں نام کمایا ۔ ہم نے ماضی کے سپر سٹارکرکٹر کی تصویریں اور ویڈیو بنائی اور تین بجے ان سے اجازت لے کر کارڈف کا رخ کیا ۔ (جاری ہے )