عام انتخابات میں پی ٹی آئی پر پابندی زیر غور نہیں
اسلام آباد: سینئر سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ 8؍ فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی شرکت پر پابندی عائد کرنے پر غور نہیں کیا جا رہا۔
رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی تصدیق کی کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کا کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ایسا کوئی معاملہ کسی بھی موقع پر زیر غور آیا ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ گزشتہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض (جو اب ن لیگ کا حصہ ہیں) نے بھی اپنی سابقہ پیشگوئی تبدیل کردی ہے کہ پی ٹی آئی رہے گی اور نہ بیلٹ پیپر پر اس کا انتخابی نشان بلا۔
اب وہ کہتے ہیں کہ صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے گی لیکن ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں زیادہ ووٹ کیوں نہیں پڑیں گے۔
جمعرات کو دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے راجہ ریاض نے کہا کہ تین بڑی کمی کی وجہ سے پی ٹی آئی کیلئے انتخابی مقابلہ بہت مشکل ثابت ہوگا، تجربہ نہیں، پیسہ نہیں اور وقت نہیں۔
تاہم، پی ٹی آئی کی قیادت کو بھرپور یقین ہے کہ الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے بغیر (روک ٹوک کے بغیر) بھی اگر اسے الیکشن لڑنے کی اجازت ملی تو وہ بڑا سرپرائز دے گی۔
پی ٹی آئی والوں کی رائے ہے کہ بیلٹ پیپر پر انتخابی نشان بلا بھی بڑا سرپرائز ہوگا، صرف پارٹی چیئرمین عمران خان ہی ایسا نہیں سمجھتے بلکہ جمعرات کو پارٹی کے جیل میں قید رہنما پرویز الٰہی بھی یہی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو امید سے زیادہ ووٹ پڑیں گے۔
رابطہ کرنے پر انٹیلی جنس کے ایک اہم ذریعے نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی بڑی مقبولیت کی باتیں محض کہی سنی باتیں ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، ذریعے نے کہا کہ زمینی حقائق عمومی تاثر سے بالکل مختلف ہیں۔
دی نیوز کی جانب سے حال ہی میں کرائے گئے سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت پنجاب میں 41؍ فیصد ہے، ن لیگ 28؍ فیصد، پیپلز پارٹی 4؍ فیصد جب کہ ٹی ایل پی وغیرہ کی مقبولیت صرف 6؍ فیصد ہے۔
سندھ کے معاملے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت 36؍ فیصد، پیپلز پارٹی 35؍ فیصد، ن لیگ تین فیصد، ایم کیو ایم وغیرہ دو فیصد ہے۔ خیبر پختونخوا کی بات کریں تو 69؍ فیصد ووٹ پی ٹی آئی کو جا سکتا ہے، ن لیگ 12؍ فیصد جب کہ پیپلز پارٹی کیلئے مقبولیت صرف 2؍ فیصد ہے۔
بلوچستان میں پی ٹی آئی کی مقبولیت 36؍ فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے، اس کے بعد پیپلزپارٹی 18؍ فیصد، اے این پی 11؍ فیصد جب کہ ن لیگ بھی 11؍ فیصد مقبول ہے۔
سروے میں جواب دینے والے ہر پانچ میں سے تقریباً دو لوگوں (37؍ فیصد) کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان پارٹی کے سربراہ نہیں ہوں گے تو وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔
پی ٹی آئی کے تقریباً آدھے ووٹرز کا کہنا ہے کہ عمران خان پارٹی کے سربراہ نہ ہوں گے تو وہ پھر بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ اگر پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ نہیں لیتی تو چوتھائی ووٹرز اس صورت میں نون لیگ کو ووٹ دیں گے۔
راجہ ریاض کی رائے تھی کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ پارٹی میں تین چیزوں کی کمی ہے، تجربہ نہیں، پیسہ نہیں، وقت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 9؍ مئی کے بعد پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی اور ارکان صوبائی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی چھوڑ کر جا چکی ہے اور اب پارٹی کیلئے مناسب امیدواروں کو الیکشن میں لانا بہت مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو الیکشن کیلئے ٹکٹ دیا جائے گا ان کے پاس الیکشن کا تجربہ ہوگا اور نہ ان کے پاس الیکشن مہم چلانے اور ووٹروں تک پہنچنے کیلئے وقت، ماضی کے برعکس، پی ٹی آئی کو فنڈز کے مسائل کا سامنا بھی رہے گا۔
راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ الیکشن لڑنا اور الیکشن کے دن کی ڈائنامکس بہت ہی اہم ہیں جن کیلئے تجربہ، وقت اور پیسہ چاہئے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے پاس اس دفعہ یہ تینوں نہیں ہیں۔
چند ماہ قبل، راجہ ریاض نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کر دی جائے گی اور اس کا انتخابی نشان بلا الیکشن کمیشن آف پاکستان فہرست سے ہٹا دے گی جب کہ عمران خان جیل میں رہیں گے، اب وہ کہتے ہیں کہ صورتحال تبدیل ہو گئی ہے اور بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان ہوگا۔