برمنگھم شہر سے جڑی پرانی یادیں
پانچ ہفتے برطانیہ میں
(قسط نمبر22)
تحریر: محمد اسلم
10 جون کو میں ، میرے بڑے بھائی محمد ادریس اور بھتیجا محمد شعیب شام پانچ بجے مانچسٹر سے کار میں سوار ہو ئے اور برمنگھم کا رخ کیا۔ہم 85 میل کا سفر دو گھنٹے میں طے کر کے شام سات بجے برمنگھم پہنچے ۔ برمنگھم شہرسے پانچ میل آگے ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) کے قصبے میں ایک ہوٹل ہماری منزل تھا۔ آج سے 55 سال پہلے میں جب دسمبر 1967 میں پاکستان سے برطانیہ آیا تھا تو میں نے سب سے پہلے ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) قصبے میں ہی ایک فیکٹری میں ملازمت کی تھی۔ اس علاقے میں پہنچ کر مجھے اپنا پرانا دور یاد آگیا،وہی گلیاں اور وہی بازار میرے سامنے تھے ۔1960 کے عشرے میں ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH)قصبے میں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں تھیں۔ ان میں چند بڑی فیکٹریاں بھی تھیں جن میں سے ایک” سٹیورٹ اینڈ لائیڈز” (STEWART AND LLOYDS) تھی ۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں17برس کی عمر میں اس فیکٹری میں پہلی بار کام کرنے کے لیے گیا تھا۔ یہ وسیع و عریض فیکٹری تھی جس میں ہزاروں لوگ کام کرتے تھے ۔فیکٹری کے ایک حصے میں لوہے کو پگھلایا جاتا تھا اور ایک حصے میں لوہے کے پائپ بنائے جاتے تھے، پھر تیسری جگہ ان پائپوں پر رنگ کیا جاتا تھا ۔یہاں چھوٹے بڑے پائپس تیار کیے جاتے تھے پھر یہ پائپ برطانیہ کے مختلف شہروں میں فروخت کے لیے بھیج دیے جاتے تھے اور مصنوعات کی خاصی مقدار ایکسپورٹ بھی کی جاتی تھی ۔ اس فیکٹری میں میرے والد اور دو بھائیوں کے علاوہ ہمارے کئی رشتہ دار بھی کام کرتے تھے ۔” سٹیورٹ اینڈ لائیڈز” (STEWART AND LLOYDS) کے علاوہ ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) میں درمیانے درجے کی کئی سٹیل فیکٹریاںبھی تھیں۔ چھوٹے پیمانے پر مصنوعات بنانے والی سینکڑوں فیکٹریاں بھی تھیں جو دن رات چلتی تھیں اور ان فیکٹریوں میں ہمارے جیسے ہزاروں لوگ کام کرتے تھے۔ اس وقت ایک عام مزدور کی مہینے کی تنخواہ 40 پونڈ تھی اور ایک پونڈ 10 روپے کا ہوتا تھا یعنی پردیس میں محنت مزدوری کرنے والے 400 پاکستانی روپے کماتے تھے۔ اس زمانے میں اکثر پاکستانی ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ سو،سواسو روپے تک کی مزدوری تو پاکستان میں بھی مل ہی جاتی ہے، پھر ہم یہاں سات سمندر پار کیا لینے آئے ہیں، ہمیں اپنے وطن واپس چلے جانا چاہیے لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں تھی ۔ برطانیہ میں صرف تنخواہ ہی نہیں ملتی تھی، بہت سی سہولیات بھی تھیں، کام نہ ملنے پر بیروزگاری الاؤنس ملتا تھا ، بیمار ہونے کی صورت میںعلاج کی سہولت بلا معاوضہ تھی ،خوراک خالص تھی ،موسم بھی بہت خوشگوار رہتا تھا، یہ تمام سہولتیں اور پھر برطانیہ کا رنگین ماحول،رفتہ رفتہ یہ تارکین وطن برطانیہ کی زندگی کے عادی ہوتے گئے اورپھر یوں ہوا کہ 1960 کے عشرے میں پاکستان واپس جانے کی باتیں کرنے والے ا کثر لوگ کچھ وقت گزرنے کے بعد وطن واپسی کا ارادہ ہی ترک کر بیٹھے اور آج ان کی تیسری نسل برطانیہ میں اپنی زندگی گزار رہی ہے، برطانیہ اوریہ پاکستانی تارکین وطن لازم و ملزوم بن چکے ہیں ۔
میں ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) قصبے کی بات کر رہا تھا۔ 1960کے عشرے میںہماری لدھیانہ اور افریقہ کمیونٹی کے بہت سے گھرانے ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) میں مقیم تھے۔ میں اور بھائی ادریس تو ایک برس بعد 1968 میں ہی اس قصبے کوخیرباد کہہ کر 300 میل دور گلاسگو چلے گئے ۔بعد میں ہماری طرح لدھیانہ اور افریقہ کمیونٹی کے کئی گھرانے بھی ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) چھوڑ گئے اس وقت ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) کے قصبے میں ہماری افریقہ کمیونٹی کے صرف پندرہ ، بیس گھرانے ہی آباد ہیں ۔ہمارے ہم عمر اور دوست خود تو ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں البتہ ان کی اولادیں کام کرتی ہیں۔شعیب نے اچانک بریک لگائی تو پتہ چلا کہ ہم منزل پر پہنچ گئے ہیں ۔بڑے بھائی محمد ادریس کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ میں اور شعیب ہوٹل میں قیام کریں گے ۔ہوٹل تین منزلہ تھا جس کی ریسیپشن پر ایک عرب خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ ہوٹل ہوسٹل ٹائپ کا تھا لیکن کمرہ ٹھیک تھا ۔بڑے بھائی ادریس نے کہا کہ وہ تو اپنے دوست محمد انور کے گھر رکیں گے ۔ہم نے ہوٹل میں سامان رکھا اور تقریبا ًنصف گھنٹہ آرام کیا پھر ہم سب محمد انور کے گھر چلے گئے۔ 77 سالہ محمد انور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نزدیکی گاؤں ساڑھے چار چک کے باسی ہیں۔ وہ پرتپاک انداز میں ملے ۔سادہ طبیعت کے محمد انور کے چہرے سے اور گفتگو سے ان کی کا خلوص اور محبت جھلک رہی تھی ۔ محمد انور نے اپنے برادران نسبتی ارشاد اور سرفراز کو بھی بلا لیا۔ ارشاد اور سرفراز میرے بچپن کے ساتھی ہیں۔ کنیا کے شہر نیروبی میں 1950کے عشرے کے آخری برسوں میں ہم اکٹھے رہے۔ مجھے وہ دن یاد آگئے جب ہم نیروبی کے ایسٹلے سیکشن7میں نور احمد کے گھر میں بطور کرایہ دار رہا کرتے تھے، نور احمد ، ارشاد اور سرفراز کے والد تھے ، اس وقت میری عمر کوئی سات آٹھ برس تھی ، ارشاد بہت گرم جوشی سے مجھے ملا اور بچپن کی باتیں چھڑ گئیں۔ ارشاد اور سرفراز کے والد نور احمد کی نیروبی میں ان کے گھر سے ایک میل کے فاصلے پر دکان تھی جس میں وہ مونگ پھلی اورکولڈ ڈرنکس بیچتے تھے۔ ایک روز انہوں نے قدر ے تاخیر سے دکان بند کی اور گھر واپسی کی راہ لی تو راستے میں کالوں نے انہیں لوٹ لیا ۔وہ گھر پہنچے تو ان کی اہلیہ کہنے لگیں کہ شہر کے حالات اچھے نہیں ، آپ جلدی دکان بند کر کے گھر آ جایا کریں۔
محمد انور نے بتایا کہ ان کے گھرانے کا کینیا سے کچھ نہ کچھ رابطہ ابھی تک برقرار ہے اور ان کی اہلیہ آج کل چھٹیاں گزارنے کے لیے کینیا گئی ہوئی ہیں۔ محمد انور نے مزید بتایا کہ ان کا بیٹا محمد آصف ٹرالر چلاتا ہے، یہ بات سن کر مجھے خاصی حیرت ہوئی اور میں نے آصف سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم 40 فٹ لمبا ٹرالر کیسے کنٹرول کر لیتے ہو؟ میری بات سن کرآصف کاماموں ارشاد بولا کہ اب ہمارا دور نہیں ،یہ لڑکے بہت تیز ہو گئے ہیں۔ باتوں باتوں میں وقت گزرتا رہا۔ نماز عشا کا وقت ہو چکا تھا۔ محمد انور نے بتایا کہ ”بلیک ہیتھ ”میں پہلے مسجد نہیں تھی، تقریباً 20 برس پہلے مقامی مسلمانوں نے ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ہے ۔ہم نے نماز عشا محمد انور کے گھر میں باجماعت ادا کی ، ہمارے میزبان نے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے محمد انور سے اجازت چاہی تو انہوں نے کہا کہ آپ کل جن دوستوں کے گھروں میں جانا چاہیں گے، میں آپ کے ساتھ چلوںگا۔ محمد انور کی اس پر خلوص پیشکش کو مسترد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ طے یہ ہوا کہ ہم اگلے روز محمد انور کو ساتھ لے کر”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH) میں مقیم افریقہ والی کمیونٹی کے گھرانوں کے دیگر دوستوں سے بھی ملاقات کریں گے۔
(جاری ہے )