حاجی شیر محمد عرف حاجی شیرا کی یادیں
پانچ ہفتے برطانیہ میں
(قسط نمبر16)
تحریر: محمد اسلم
مجھے آج بھی جنوری 1976 کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب میں کمپنی باغ کے سامنے سول لائنز میں حاجی شیرمحمدکی کوٹھی کے لان میں بیٹھا ہوا تھا۔ حاجی شیر محمد عرف حاجی شیراچارپائی پر بیٹھے تھے اور ان کے سامنے کرسی پر معروف عالم دین اور خطیب مولانا ضیا القاسمی براجمان تھے۔ حاجی شیرا مولانا ضیاالقاسمی سے گفتگو میں مصروف تھے لیکن جب انہوں نے مجھے دیکھا تو مسکرائے اور بولے”بھئی اسلم !تم آخر پاکستان آ ہی گئے” پھر وہ مولانا ضیا القاسمی کی طرف دوبارہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ باقی باتیں بعد میں ،پہلے میں آپ کو اسلم کی کہانی سناتا ہوں ۔ ان کا پورا خاندان گلاسگو میں رہتا ہے۔ یہ بھی گلاسگو ہی میں تھے لیکن یہ پاکستان کے عاشق اور شیدائی ہیں۔ گلاسگو میں ان کا دل نہیں لگتا تھا اور یہ ہر لمحہ وہاں سے بھاگنے کی تدبیر یں سوچتے رہتے تھے۔ ہم نے انہیں بہت سمجھایا لیکن یہ نہ سمجھے اور آخر پاکستان آہی گئے۔ اس کے بعد حاجی شیر محمد مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے کیا ارادے ہیں ؟میں نے کہا میری یہاں پاکستان میں واقفیت بہت کم ہے، آپ بتائیں میں کیا کروں؟ انہوں نے اپنے بھتیجے عبدالستار (چوہدری رحمت علی کے بیٹے) سے پوچھا کہ فیصل آباد میں ہمارے پاس کتنی دکانیں ہیں ،وہ بولا کچہری بازار میں نور سٹور اور سرکلر روڈ پر گفٹو سپرسٹور ہے۔ حاجی شیرا نے عبدالستار سے کہا،” ایک دکان اسلم کو دیدیں اورانہیں نواباں والا میں بشیرکے پاس لے جائیں ”۔ (بشیر حاجی شیر محمد کے بڑے بھائی فقیر محمد کے بیٹے تھے ۔نواباں والا میں ان کی تولیہ کی فیکٹری تھی ) ۔ میں نے حاجی شیر محمد کا شکریہ ادا کیا اور عبدالستار کے ساتھ ان کی کی سرخ رنگ کی کار میں بیٹھ کر نواباں والا پہنچاجہاں عبدالستار نے میری چوہدری بشیر سے ملاقات کروائی اور حاجی شیر محمد کا پیغام پہنچایا۔ بشیر صاحب سے ”گفٹو سپر سٹور” کی پگڑی اڑھائی لاکھ روپے اور سٹاک پانچ لاکھ روپے کا طے پایا۔ ہمارے درمیان یہ بھی طے پایا کہ دکان کی قیمت کی ادائیگی ایک سال میں مکمل ہوگی ۔اس طرح میں نے فیصل آباد میں اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اللہ تعالی نے ہمارے گھرانے کوبہت نوازا، ایک سے تین دکانیں ہو گئیں۔ پھر ہم نے ہوزری لگائی اور دو ٹیکسٹائل ملیں بھی لگائیں۔ ہماری اس کاروباری ترقی میں اللہ کی رحمت کے بعد بنیادی کردار حاجی شیر محمد کا تھا ۔
حاجی شیر محمدآج سے تقریباً84برس قبل 1938 میں برطانیہ گئے تھے۔ برطانیہ کے میرے حالیہ دورے(جون2023) میں، میں نے ان کے بیٹے محمد نعیم سے ملاقات کر کے حاجی شیرا اور ”شیر برادرز ”کی یادیں تازہ کیں۔محمدنعیم نے مجھے بتایا کہ اس کے والد حاجی شیر محمد کے والد یا دادا لدھیانہ کے گاؤں” علی پور ”کے رہنے والے تھے، وہاں ان کے پاس تھوڑی سی زرعی اراضی تھی۔بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں جب بار آباد ہوئی تو انہیں انگریز نے ایک مربع اراضی الاٹ کی اور اس طرح یہ لوگ سمندری کے قریب چک نمبر 477 ”کوٹا ں” آگئے جہاں حاجی شیر محمد 1910 کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ حاجی شیر محمد کی شادی فقیراںبی بی سے ہو گئی جو ان کی رشتہ دار تھیں۔حاجی شیر محمد کا بیٹا رفیق تقریبا 1933 میں پیدا ہوا ،1938میں بیرون وطن روانگی سے قبل ان کے ہاں ایک بیٹی زبیدہ بھی پیدا ہوئی (زبیدہ بی بی حیات ہیں )۔
حاجی شیر محمد کو ان کے بڑے بھائی فقیر محمد نے برطانیہ کیلئے تیار کیا تھا۔ حاجی شیرا بذریعہ ٹرین کراچی پہنچے اور وہاں سے پاسپورٹ بنوایا اور پھر بحری جہاز میں سوار ہوئے۔یہ مرچنٹ نیوی کا جہاز تھا ۔حاجی شیر محمد کے ساتھ کوٹا ںگاؤں کے چار پانچ افراد اور بھی تھے ۔ ان لوگوں نے ساؤتھ افریقہ تک کا کرایہ 30 روپے ادا کیا تھا ،جہاز ساؤتھ افریقہ رکا اور یہ وہاں اترے لیکن انہیں ساؤتھ افریقہ پسند نہ آیا تو یہ جہاز میں دوبارہ سوار ہو گئے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس مزید کرایہ نہیں تھا ۔بحری جہاز والوں نے مزید کرایہ مانگاتو انہوں نے صاف بتا دیا کہ ان کے پاس تو کچھ نہیں ہے ۔جہاز والوں نے انہیں بٹھائے رکھا اور یہ ”لیور پول ”(LIVERPOOL)کی بندرگاہ پر اترے۔لیور پول مانچسٹر شہر سے34 میل کے فاصلے پر ہے ۔محمد نعیم نے مجھے بتایا کہ اس کے والد حاجی شیر محمد کے پاس مانچسٹر میں مقیم اسماعیل نامی شخص کا ایڈریس تھا ۔ان کے پاس صرف ہندوستانی کرنسی تھی۔انہوں نے چار جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن وہ انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے ان کے ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا ۔انہوں نے اسماعیل کا ایڈریس انگریز بس ڈرائیور کو دکھایا اور اشاروں سے اسے سمجھا دیا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس انگریز ڈرائیور نے انہیں بس میں بٹھا لیا اور مانچسٹرشہر میں بر لب سڑک اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی دکان پر اتار دیا جو اسماعیل کی رہائش گاہ سے کچھ دور تھی ۔اس طرح حاجی شیر محمد اور ان کے ساتھی مانچسٹر پہنچ گئے۔” اٹالین ”شخص کی فش اینڈ چپس کی دکان تھی، اس نے حاجی شیر محمد اور ان کے ساتھیوں سے کہا کہ تم آلو چھیلو،پھر میں تمہیں ایڈریس پر پہنچا کے آتا ہوں۔ حاجی شیر محمد اور ان کے ساتھی نوجوان تھے انہوں نے دس منٹ میں آلووںکی پوری بوری چھیل دی جس کے بعد رات 11 بجے اٹالین شہری انہیں اسماعیل کے گھر چھوڑ آیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ تم صبح میرے پاس آنا ،میں تمہیں کام بھی دوں گا۔اگلی صبح حاجی شیر محمد اور ان کے ساتھی اس اٹالین شہری کے پاس گئے تو اس نے انہیں اپنے پاس دکان پر کام پر رکھ لیا ،ان کی تنخواہ 10 شلنگ یعنی چھ روپے روزانہ مقرر ہوئی جبکہ ڈیوٹی 16 گھنٹے کی تھی۔ حاجی شیر محمد اور ان کے ساتھیوںنے دو ماہ یہ کام کیا ۔ایک روز انہوں نے دکان کے مالک سے چند دن کی چھٹی مانگی اور کہا کہ وہ اپنے گاؤں(سمندری) سے تعلق رکھنے والے غلام محمد سے ملنے کیلئے سکاٹ لینڈ جانا چاہتے ہیں۔دکان کے مالک نے انہیں جانے کی اجازت دے دی ۔یہ ریل گاڑی کے ذریعے گلاسگو سنٹرل ریلوے سٹیشن پہنچے وہاں سے بس کے ذریعے پانچ میل دور ‘بشپ برگ”(BISHOP BRIGG) پہنچے ، غلام محمد نے انہیں خوش آمدید کہا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ واپس مانچسٹر نہ جائیں بلکہ”بشپ برگ” میں ہی بطور پیڈلر کام کریں۔
”بشپ برگ”(BISHOP BRIGG) آکر حاجی شیر محمد نے بطور پیڈلر کام شروع کر دیا اور بہت محنت کی وہ ڈور ٹو ڈور جاتے تھے ۔حاجی شیر محمد اور ان کے چار پانچ ساتھی اکٹھے ایک قصبے کی طرف چلے جاتے، ان کے پاس بیگ میں سامان موجود ہوتا تھا ۔قصبے میں پہنچ کر یہ مختلف گلیوں میں پھیل جاتے، اس زمانے میں ان کی روزانہ کی سیل تقریباً ایک پاؤنڈ ہوتی تھی جو پاکستانی کرنسی میں 10 روپے بنتے تھے۔ یہ پورا گروپ غلام محمد کے پاس میں ہی رہتا تھا ۔حاجی شیر محمد نے دو سال کے لگ بھگ یہ کام کیا اور 500 پاؤنڈ کی بچت کی۔ انہوں نے اس دوران میں اپنی رقم ہندوستان نہیں بھجوائی۔(یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے )
محمد نعیم نے مجھے مزید بتایا کہ1939میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو انگریز نے فوج میں جبری بھرتی شروع کر دی جس پر حاجی شیر محمد ،غلام محمد اور علی محمد تینوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا ۔ وہ تینوں 1940 میں لیور پول کی بندرگاہ پہنچے ،جہاز براستہ روس آرہا تھا۔ حاجی شیر محمد کے پاسپورٹ پر روس نہیں لکھا ہوا تھا اس لیے انہیں مجبورا ًبرطانیہ ہی میں رکنا پڑا اور وہ واپس بس میں بیٹھ کر ”بشپ برگ” (BISHOP BRIGG) پہنچ گئے جبکہ غلام محمد اور علی محمد وطن کیلئے روانہ ہوئے۔ اللہ تعالی کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے یہ جہازجنوبی افریقہ کے نزدیک سمندر میں سفر کر رہا تھا کہ جرمن آبدوز نے وارننگ دی کہ جہاز5منٹ میں خالی کردیا جائے تو لوگ کشتیوں میں سوار ہونے لگے ۔ 5منٹ بعد جرمن آبدوز نے گولہ داغ دیا ۔غلام محمد بہت دلیرآدمی تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ کشتی آگئی ہے تو وہیں جہازسے کشتی میں چھلانگ لگا دی جبکہ علی محمد دوسری کشتی کے آنے کا انتظار کرتے رہے اور جہاز ڈوبنے سے جاں بحق ہو گئے اس طرح پاسپورٹ پر روس کی مہر نہ ہونے کی وجہ سے حاجی شیر محمد کی جان بچ گئی ۔علی محمد مرحوم کا بیٹا اقبال اب بھی گلاسگو میں رہتا ہے۔حاجی شیر محمد کے بیٹے محمد نعیم نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ 1952 میں ان کے والد حاجی شیر محمد نے گلاسگو میں ویئر ہاؤس خریدا ۔ وہ 1955 کے لگ بھگ وہ گلاسگو کے محلہ گوربل سٹریٹ (GORBOL STREET) میں منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے پہلی منزل پر ایک مکان خریدا بعد میں یہ مکان کارپوریشن نے 1972 میں منہدم کر دیا تھا۔ اس زمانے میں گلا سگو میں چار مسلمانوں کے پاس ٹیکسٹائل کے ویئر ہاؤسز تھے ۔ کاکا اینڈ کمپنی ،شاہین ویئر ہاؤس، ایس ایم سحر،عطا محمد اینڈ ٹانڈا۔ ایک ویئر ہاؤس یہودیوں کا بھی تھا جس کا نام برکلے ویئر ہاس تھا۔ حاجی شیر محمد نے ویئر ہاؤس کا کاروبار کیا ،قسمت نے یاوری کی تو ان کا کاروبار چل نکلا جس کے بعد انہوں نے بہت بڑی جگہ پر بڑا ویئر ہاؤس بنا لیا۔ حاجی شیرا نے اپنے بھائیوں رحمت علی ‘ محمد علی اور حشمت علی کو بھی یکے بعد دیگرے گلاسگو بلوا لیا ۔1962میں پاکستان کے صدر ایوب خان برطانیہ کے دورے پر آئے تو انہوں نے ایڈنبراکا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران انہوں نے پاکستانیوں سے کہا کہ آپ اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے حاجی شیر محمد سے کہا کہ آپ ٹرانسپورٹ کا کام کریں۔ صدر ایوب خان نے حاجی شیر محمد کو روٹ پرمٹ دیا۔ حاجی شیر محمد کے بھائی محمد علی ایف اے پاس تھے ۔وہ پاکستان آگئے ۔ ان لوگوں نے بیڈ فورڈ کمپنی سے 10 عدد بسیں خریدیں اور پاکستان لے گئے۔ ٹرانسپورٹ کا کاروبار بھی بہت کامیاب ہوا اور پنجاب میں ‘شیربرادرز ‘کا نام ایک برانڈ بن گیا۔
(جاری ہے )