سعودی سرمایہ کاری کیلئے ریاض کے 3 بڑے خدشات دور کرنا ہونگے

سعودی عرب سے تانبے، معدنیات، ریفائنری اور شمسی منصوبوں میں 25تا 30ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش میں پاکستان کو قابل عمل منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاض کے تین بڑے خدشات دور کرنا ہوں گے۔

ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سویلین سائیڈ کی زیر نگرانی اور  چلائی جانے والی بہت مشہور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

سب سے پہلے سعودی عرب حب یا گوادر میں ریفائنری کی تعمیر میں اپنی دلچسپی ظاہر کر  رہا ہے جس کی پاکستان میں تخمینہ 10 تا 12 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے۔ سعودی عرب 2019 سے اس پر بات کر  رہا ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہو سکا۔

سعودی عرب کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے بڑے خدشات میں سے ایک 18ویں آئینی ترامیم کے نتیجے میں پیٹرولیم سرمایہ کاری کی پالیسی میں تاخیر کے ذریعے مراعات دینا ہے کیونکہ صوبے بھی اس میں شامل ہیں اور دوسری بات یہ کہ اس میں دی جانے والی مراعات مطلوبہ حد تک نہیں۔

اس تشویش کی وجہ سے ریفائنری منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر ہوئی ہے۔ لیکن اب سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات میں شامل عہدیداروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پیشرفت ہوئی ہے اور اب وہ کسی میگا ایونٹ پر دستخط کرنے اور ریفائنری کی تعمیر پر کام شروع کرنے کا انتظار کر  رہے ہیں جو شاید حب میں 10 سے 12 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کو راغب کرے۔

سعودی عرب نے ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے جیساکہ وہ اس میں 10 سے 20 فیصد شیئرز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بیرک گولڈ کارپوریشن اور پاکستان کے سرکاری اداروں (ایس او ایز) کے ساتھ ساتھ بلوچستان حکومت ریکوڈک منصوبے میں بالترتیب پچاس پچاس فیصد حصص کی مالک ہوں گی۔ فیز 1 میں کل 4 ارب ڈالرز اور فیز 2 میں 3 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوگی۔

پیداوار مالی سال 2027-28 سے شروع ہوگی۔ بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن ملٹی بلین ڈالر کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے رسک انشورنس فراہم کرے گی۔ اب مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے اپنے 10 سے 20 فیصد شیئرز فروخت کرنے (آف لوڈ) کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بھی انتظامی کنٹرول کھو دے گی۔ لہٰذا اسلام آباد بیرک گولڈ کو دونوں جانب سے مساوی حصص فروخت کرنے پر راضی کرنے کی کوششیں کر رہا ہے، لہٰذا اس اربوں ڈالر کے منصوبے میں انتظامی کنٹرول کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *