عمران خان اسلام آباد میں بیٹھ کر ملک چلانا چاہتے تھے: پرویز خٹک
پشاور: تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے چیئرمین اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہےکہ ہمیں الیکشن کرانے کے 4 مواقع ملے اور چاروں ضائع کیے گئے کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی نہیں مان رہے تھے وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ملک چلانا چاہتے تھے۔
ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین پرویز خٹک نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں سے پوچھتے تک نہیں تھے، ہمیں الیکشن کرانے کے 4 مواقع ملے، الیکشن کے چاروں مواقع ضائع کیے گئے، چیئرمین پی ٹی آئی نہیں مان رہے تھے، کئی مرتبہ کہا تھا کہ الیکشن کی طرف جانا چاہیے کیوں کہ آگے اندھیرا نظر آرہا ہے لیکن چیئرمین پی ٹی آئی اسلام آباد سے بیٹھ کر ملک چلانا چاہتے تھے، ہم اس سوچ سے پارٹی چلا رہے تھے کہ نیا پاکستان بنے گا ہم نے محنت کی لیکن اس کا صلہ دیا گیا نہ پوچھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر نے کابینہ کو بتایا کہ منی لانڈرنگ کے پیسے پکڑے گئےہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی حکومت خود ختم کی، پی ٹی آئی کے پاس معیشت بہتر کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا، سائفر کے معاملے پر کئی میٹنگز ہوئیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے اعظم خان کو کہا تھا کہ انہیں میری بات نہیں ماننی، اعظم خان کے ساتھ ذاتی اختلاف نہیں تھا۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نہیں چاہتے تھے کہ انکے علاوہ کوئی دوسرا شخص لیڈر بن جائے، فیصلے چیئرمین پی ٹی آئی خود کرتے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی ٹیم بناتے تھے مگر اس ٹیم کو کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔
پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے سربراہ کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز ناراض تھے ان سے کوئی پوچھتا تک نہیں تھا جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کٹھ پتلی وزیراعلیٰ چاہیے تھاجو میں نہیں تھا، مجھے وزیراعلیٰ نہ بنانےکی 2 وجوہات تھیں، میرے دل میں بہت ساری باتیں ہیں میں نہیں کرنا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ 12 سال میں نے ایمانداری سے تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ کام کیا محنت کی پارٹی کو اٹھایا صوبائی صدر بھی رہا، ہم اس سوچ سے پارٹی چلا رہے تھے کہ تحریک انصاف آئے گی اور تبدیلی آئے گی نیا پاکستان بنے گا لیکن جو 5 سال ہم نے محنت کی اس کا صلہ دیا گیا نہ پوچھا گیا پھر وہ چیزیں جو ہم نے نافذ کیں وہ پنجاب میں نہیں کرسکے، ارادے نہیں تھے، کئی دفعہ میں نے کوشش کی پنجاب پولیس ٹھیک کریں، ریفارمز کریں، رشوت کو کنٹرول کریں اور عام لوگوں کو سہولت دیں لیکن کسی کا ارادہ نہیں تھا، پھر جب 9 مئی کے واقعات آئے تو عجیب سا ماحول بن گیا، 9 مئی کو جو ہوا اس کے بعد میں 20 دن چھپا رہا تو میں نے پوری ریل واپس چلائی کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا، ہم تو اس لیے نہیں آئے تھے کہ ہم اس ملک میں انتشار پھیلائیں اپنے اداروں پر حملہ کریں فوج کے ساتھ دشمنی بنائیں یہ ہماری سوچ نہیں تھی۔
پرویز خٹک کا کہنا تھاکہ میرے دل میں بہت ساری باتیں ہیں میں نہیں کرنا چاہتا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جو لائن دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ہم لوگوں کو بلاتے تھے ان کو یہ بھی ہم نے کہا پرامن احتجاج ہوگا کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرنی لیکن ایک اور ٹیم بنی تھی جو ہماری نظر میں نہیں تھی ان کو کوئی اور ہدایات دی تھیں، اس دن ہم نے احتجاج کی کال دی اور پرامن احتجاج کی کال تھی لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ کوئی کہے کہ ہمارے سینئر لیڈرز آئے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا کہ اس دن یہ جاکر یہاں ان تنصیبات پر حملہ کریں گے اس پر مجھے بہت دکھ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی ٹیم سے مذاکرات ہوئے اور باجوہ صاحب نے کئی دفعہ کمٹمنٹ کی، ایک دفعہ حکومت میں تھے ہمیں موقع ملا کہ علیم خان کو وزیراعلیٰ بنایا جائے تو حکومت نہیں جائے گی، جس طرح دو دفعہ آخری انہوں نے کہا کہ جولائی میں الیکشن کرانے کو تیار ہیں اور وہ سنجیدہ تھے لیکن خان صاحب نہیں مانے، وہ اگر مان جاتے تو 9 مئی والا واقعہ نہ ہوتا۔
سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں کئی دفعہ سمجھ نہیں آتی تھی فیصلہ ہو جاتا تھا ایگری ہوجاتے فیصلہ بدل جاتا تھا ہم خود پریشان تھے، ہم نے کئی دفعہ کہا کہ ہماری حیثیت ختم کرا رہے ہیں، پارٹی میں کیوں کہ وہ اعتماد ختم ہوجاتا ہے میں آپ سے بیٹھ کر فیصلہ کرتا ہوں جاتا ہوں انکاری ہوجاتے ہیں تو ہماری حیثیت بھی ختم کردی تھی، کسی پارٹی کے سینئر عہدیدار کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ کسی نے خان صاحب کو تجویز دی ہے فیصلہ وہ خود کرتے ہیں سنتے ہیں ایگری کرتے ہیں لیکن فیصلہ اس کی مرضی کا پھر ہم صبح تڑپتے رہیں جو مرضی کریں فیصلہ انہوں نے خود کیا ہے جو کچھ کیا ہے خود کیا ہے۔