جب شدت جذبات غالب آگئے
پانچ ہفتے برطانیہ میں ( قسط 4)
تحریر: محمد اسلم
برطانیہ میں آمد کے دوسرے روز موسم خوشگوار تھا ۔درجہ حرارت 19 سینٹی گریڈ اور ہلکی دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ فاروق نے بتایا کہ کئی ہفتے کے بعد دھوپ نکلی ہے ور نہ مسلسل بوندا باندی کا سماں رہتا ہے۔
21 مئی کو بھائیوں کے ساتھ ملاقات میں میں نے اگلے روز والدین کی قبروں پر حاضری دینے کا پروگرام طے کر لیا تھا ۔ میرے والد حاجی احمدین 1964 میں جب برطانیہ آئے تو ان کی عمر 44 سال تھی۔انہوں نے گیارہ سال وہاں کی ایک سٹیل ملز میں کام کیا اور پھر تیس برس ریٹائرڈ لائف( Retired Life) گزاری ۔ ان کا انتقال 10 اکتوبر 2005 کو 85 برس کی عمر میں ہوا برطانیہ میں قیام کے دوران انہوں نے 41 برس کے عرصے میں 16 مرتبہ پاکستان کا سفر کیا ۔1996 میں انہیں سانس کا عارضہ لاحق ہوا لیکن یہ عارضہ زیادہ شدید نہ تھا ۔بیماری کے باوجود والد صاحب حجاز مقدس کا سفر کرتے رہے، عمروں کا سلسلہ رکانہ پاکستان آمد و رفت میں کمی ہوئی، میرے والد نے وصیت کر رکھی تھی کہ جہاں ان کاآخری وقت آئے، وہیں پر انہیں سپرد خاک کر دیا جائے۔ اتفاق کی بات ہے کہ وہ گلاسگو میں فوت ہوئے ۔میں والد صاحب کی وفات سے دو تین روز پہلے گلاسگو پہنچ گیا، میری خواہش تھی کہ میت کو پاکستان لایا جائے اور والد صاحب کی آخری ارام گاہ یہاں بنائی جائے لیکن گلاسکو میں مقیم میرے چاروں بھائیوں نے میری اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ، اس طرح 1920 میں لدھیانہ میں پیدا ہونے والے میرے والد کی آخری آرام گاہ گلاسگو میں بنی۔ میری والدہ کا انتقال اگست 2010میں ہوا تو انہیں بھی گلاسگو کے قبرستان ہی میں سپرد خاک کیا گیا۔
گلاسگو میں اس وقت مسلمانوں کے تین قبرستان ہیں ۔پرانے قبرستان میں تدفین کا سلسلہ 1910 سے شروع ہوا اور 1983 میں اس قبرستان میں گنجائش ختم ہو گئی، اس دور میں تارکین وطن کی اکثریت اپنے مرحومین کی میتیں پاکستان بھیجتی تھی اس لیے پون صدی میں یہاں 200 سے زائدقبریں ہی بنیں، اس قبرستان کے بعد CATHCART (گلاسگو کا ایک محلہ) کے قبرستان میں 1983 میں تدفین شروع ہوئی ۔ اس وقت تک اپنے پیاروں کے جسد خاکی پاکستان بھیجنے کے رجحان میں بہت کمی ہو چکی تھی جس کے نتیجے میںCATHCART کے قبرستان میں قبروں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی اور تقریباً 2011میں اس قبرستان میں جگہ ختم ہو گئی، یہاں 600 سے زائد مسلمان مدفون ہیں میرے والدین کی قبریں بھی اسی قبرستان میں ہیں۔
CATHCART کے قبرستان میں جگہ ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کو گلاسگو کے محلے CASTLE MILK کے قبرستان میں جگہ دی گئی اور 2012 کے بعد سے وہاں میتوں کی تدفین کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک حیرت ناک حقیقت یہ ہے کہ مقامی آبادی یعنی سکاٹش لوگوں میں 1970 کے بعد اپنے مردوں کو دفنانے کا رواج تقریباً ختم ہو گیا ہے اور 99 فیصد لوگ اپنے مردوں کو مشینی طریقے سے نذر آتش کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ مسیحی ہیں اورمسیحی عقیدے میں مردے کو نذرآتش کرنے کا کوئی تصور نہیں اور مردے کو دفنانے ہی کا حکم ہے۔ مشہور مبلغ ڈاکٹرذاکر نائک نے بھی اپنے ایک خطاب میں یہ بات کہی تھی کہ عیسائیت میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ مردے کو جلا دیا جائے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ برطانوی لوگ اپنے پیاروں کا جسد خاکی ایک بہت بڑے اوون ( OVEN)میں ڈال کر صرف چند منٹ میں اسے راکھ بنا دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے مردے کو باعزت طور پر غسل دینے کے بعد سپرد خاک کرتے ہیں۔
بات دور نکل گئی ۔22 مئی کی دوپہر تین بجے پروگرام کے مطابق بھائی محمد ادریس اور محمد اکرم مجھے لینے کے لیے آگئے ۔ ہم تینوں بھائی بذریعہ کار 15 منٹ میں CATHCARTکے قبرستان پہنچ گئے۔میں 10 برس کے بعد اپنے والدین کی قبروں پر حاضر ہو رہا تھا۔ میں شدت جذبات سے مغلوب تھا اور دیر سے حاضری دینے پرندامت بھی محسوس کر رہا تھا۔ میرے بھائیوں نے مجھے بتایا کہ وہ ہر ہفتے فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان جاتے ہیں۔
ہم نے قبرستان پہنچ کر دعاکی، پھر میں نے بھائیوں سے کہا کہ آپ گاڑی میں بیٹھیں ۔ مجھے والدین سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ ہم اہل سنت والجماعت والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قبر والے ہماری باتیں سن سکتے ہیں۔ میں اپنے والد کی آخری آرام گاہ پر حاضر تھا اور میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے تاخیر سے آنے کی کوئی صفائی نہیں دی، میں نے کہا ” اباجی! میں دس برس بعد آیا ہوں، بس سستی ہو گئی، آپ کو ہم سے بچھڑے ہوئے 18 برس گزر چکے ہیں، اس دوران ہمارے خاندان کے بہت سے لوگ آپ کے پاس پہنچ گئے ہیں، آپ کے چھوٹے بھائی محمد حسین بھی دسمبر2020میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے ، آپ کی اولاد میں سے میںہی پاکستان میں رہتا ہوں ، باقی چاروں بھائی اور ہمشیرہ گلاسگومیں ہیں اور آپ سے ملنے کے لیے آتے رہتے ہیں ”۔ میں اپنی رو میں بولتا چلا گیا۔ میں نے خاندان کی اور کاروبار کی باتیں بتائیں۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ میں الحمدللہ ہر روز پڑھ کرآپ کو ایصال ثواب کرتا ہوں۔ میں بالکل اسی طرح اپنے والد سے محو کلام تھا جیسے میں زندگی میں ان سے باتیں کیا کرتا تھا۔ والد کی قبر پر حاضری کے بعد میں تھوڑی دور والدہ کی قبر پر پہنچا تو مجھ پر یہی کیفیت طاری تھی۔ میں نے والدہ سے اسی طرح کی باتیں کیں ، پھر مجھے محسوس ہوا کہ میرے دل کا غبار کچھ چھٹ گیا ہے۔
CATHCART کے قبرستان میں میرے سسر چوہدری قاسم کی آخری آرام گاہ بھی ہے، میں نے ان کی قبر پر حاضر ہو کر فاتحہ خوانی کی اسی طرح فیصل آباد کی مشہور ٹرانسپورٹر فیملی شیر برادرز کے پانچ بھائیوں میں سے دو بھائیوں چوہدری حشمت علی اور چوہدری محمد علی سمندری والے کی قبر پر بھی حاضری دی۔ اس خاندان سے ہمارے پچاس سال سے تعلقات ہیں۔ ہمارے قریبی عزیز چوہدری سعید احمد (بابو شیر علی افریقہ والے کے بیٹے ) بھی یہی مدفون ہیں ان کے لیے بھی دعائے خیر کی۔ دعا مانگنے کے بعد قبرستان پر نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ قبریں ترتیب سے بنائی گئی ہیں۔ ہر قبر کا دوسری قبر سے تین فٹ کا فاصلہ ہے اور ہر ”رو ”میں تقریباً 25 قبریں ہیں۔ کسی کو اپنے پیارے کی قبر پر جانے کے لیے دوسرے کی قبر کو پھلانگنا نہیں پڑتا۔ ہر قبر کے چاروں طرف گھاس لگی ہوئی ہے۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ کسی ہرے بھرے پارک میں قبریں بنائی گئی ہیں۔ پاکستان میں ہمارے قبرستانوں کا جو حال ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی ترتیب ہی نہیں۔ ہم اپنے گھروں کی تعمیر پر لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں مگر اپنی اخری ارام گاہوں پر ایک پیسہ لگانے کے روادار نہیں ۔(جاری ہے)