پردیس میں بھی موضوع گفتگو پاکستان ہی ہوتا ہے
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 3)
تحریر۔ محمد اسلم
20مئی کی رات گلاسگو ایئر پورٹ پر فاروق اور حذیفہ ہمیں لینے آئے تھے۔ ان کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ، حذیفہ پہلے سے بڑا دکھائی دے رہا تھا ۔اس نے ماشاللہ خوب قد نکالا ہے ۔گلاسگو ایئرپورٹ 1966 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا فتتاح ملکہ الزبتھ نے کیا تھا۔ اس سے پہلے گلاسگو کے رہائشیPRESTWICK ایئرپورٹ استعمال کرتے تھے جو شہر سے 33 میل کے فاصلے پر تھا۔ یہ ایئرپورٹ 1934 میں تعمیر کیا گیا تھا ۔گلاسگو ایئرپورٹ پر بہت کم رش تھا، بوندا باندی ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے بھائیوں کو پہلے ہی اطلاع کر دی تھی کہ وہ مجھے لینے کے لیے ایئرپورٹ پر نہ آئیں۔گلاسگو ایئرپورٹ کے سامنے ایک پانچ منزلہ بلڈنگ میں کار پارکنگ کا انتظام ہے ۔ یہاں پارکنگ فیس کی وصولی کے لیے بہت عمدہ آٹومیٹک سسٹم کام کر رہاہے۔
پارکنگ ایریا میں داخل ہونے سے پہلے مشین سے کارڈ لیا جاتا ہے، واپسی پر یہ کارڈ بھی واپس مشین میں جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی بھی کرنی پڑتی ہے ،جب تک ادائیگی نہیں ہوتی ، کار کے سامنے رکاوٹ موجود رہتی ہے، جیسے ہی ادائیگی ہوتی ہے آٹومیٹک سسٹم کے تحت بار اوپر ہو جاتی ہے اور کار کو باہر جانے کے لیے راستہ مل جاتا ہے۔ اس بلڈنگ میں بیک وقت سینکڑوں کاریں پارک کی جا سکتی ہیں۔ ہم بلڈنگ سے باہر نکلے تو ساڑھے دس بج چکے تھے ۔ہر طرف خاموشی تھی اور دھیمی دھیمی روشنی تھی ۔فاروق نے بتایا کہ نماز عصر کا وقت ہے۔ ہم ایئر پورٹ سے 20 منٹ میں گھر پہنچے ۔ میری بیٹی اور نواسیاں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ ان کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔ کچھ دیر باتیں کیں اور پھر کھانا کھایا، فاروق نے بتایا کہ نماز فجر کا وقت ڈیڑھ بجے شروع ہو جاتا ہے اور سورج ساڑھے چار بجے طلوع ہوتا ہے۔
دراصل ، ہرخطے کا محل وقوع اس کے موسم اور طلوع و غروب آفتاب کے اوقات پر اثر انداز ہوتا ہے برطانیہ یورپ کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو قطب شمالی کے قریب واقع ہیں۔موسم گرما میں سورج چند گھنٹوں کے لیے غروب ہوتا ہے۔ نماز مغرب رات سوا دس بجے اورنماز عشا سوا گیارہ بجے ادا کی جاتی ہے۔نماز عشا کے صرف سوا دو گھنٹے کے بعد ڈیڑھ بجے نماز فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، ۔ نماز عشا اور نماز فجر کے وقت میں بالخصوص بہت کم فرق ہوتا ہے اسی لیے بہت سے لوگ نماز عشا پڑھ کر نہیں سو تے اور بیٹھ کر نماز فجرکا انتظار کرتے ر ہتے ہیںتاکہ نماز فجر ادا کر کے ہی سوئیں ۔ موسم سرما میں ایسا نہیں ہوتا اور سردیوں میں سورج غروب اور طلوع ہونے کا وقت تقریباً پاکستان کے برابر ہی ہوتا ہے ۔ 21 مئی برطانیہ میں میرا پہلا دن تھا۔سفر کی تھکان تھی ، صبح چار بجے نماز فجر ادا کرنے کے بعد میں دس بجے تک سوتا رہا۔
گلاسگومیں میرا قیام اپنے بھتیجے فاروق شہزاد کے گھر پر تھا جو شہر سے آٹھ میل دور ایک نئی ہاؤسنگ کالونی میں رہتا ہے۔ یہ نئی ہاؤسنگ کالونی چند سال پہلے ایک ذخیرے کا کچھ حصہ کاٹ کر بنائی گئی ہے۔ یہ بہت خوبصورت کالونی ہے جس میں پاکستان کی طرح قطار وںمیں مکانات بنانے کے بجائے مختلف انداز میں مکانات بنائے گئے ہیں جو دیکھنے میں بہت بھلے لگتے ہیں۔ یہاں مرلوں سے پیمائش کرنے کے بجائے گھر کی وسعت بیڈ رومز کی تعداد سے جانچا جاتا ہے یعنی یہاں تین مرلے ، پانچ مرلے ، سات مرلے کے نہیں بلکہ دو بیڈ روم ،تین بیڈ روم اور چار بیڈ روم کے مکانات ہوتے ہیں ۔اس کالونی میں اکثر گھر تین بیڈ روم کے ہیں ۔تیس چالیس سال پہلے تک اکثر پاکستانی گلاسگوشہر کے بالکل نزدیک رہتے تھے اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو میل دور محلوں میں ان کی رہائش تھی مگر 15 سال پہلے یہ ٹرینڈ چلا کہ پاکستانیوں کی نئی نسل پرانے محلوں سے نکل کر شہر سے 10 اور 15 میل دور نئی کالونیوں میں آباد ہو گئی ہے۔ یہ علاقے بہت خوبصورت ہیں۔ ان ہاؤسنگ کالونیوں میں کھلے لان والے بنگلے دو سے تین لاکھ پاؤنڈ میں ملتے ہیں۔ یہ مکانات بینک سے 20 یا 25 سال کے قرضے کی سکیم کے تحت خریدے جا تے ہیں۔ بینک کو 20 سے 30 فیصد تک ڈاؤن پییمنٹ کرنی پڑتی ہے یعنی عام طور پر 40 ہزار پاؤنڈ ادا کر کے مکان مل جاتا ہے۔ شہر سے 10 یا 15 میل فاصلے کا مسئلہ اس لیے کوئی مسئلہ نہیں کہ یہ کالو نیاں موٹروے اور ایکسپریس وے کے ذریعے گلاسگوشہر سے ملی ہوئی ہیں ۔آنے جانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی ۔ ٹریفک جام ہوتی ہے اور نہ زیادہ وقت لگتا ہے۔ صرف دس پندرہ منٹ میں آدمی کالونی سے شہر پہنچ جاتا ہے ۔ یہاں سکیورٹی بہت عمدہ ہے ۔پولیس اہلکار بہت کم دکھائی دیتے ہیں اور علاقے کی کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے۔
21 مئی کو تین بجے دوپہر میرے تینوں بھائی، ہمشیرہ اور ماموں زاد بھائی محمد مشتاق ملنے کے لیے آئے۔میں 10 برس کے بعد برطانیہ گیا تھا ۔ ہم نے بچپن کی یادیں تازہ کرنے کا سلسلہ شروع کیاتو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا ۔آبائی شہرٹوبہ ٹیک سنگھ کی یادیں، بچپن کی باتیں، سکول کے قصے، رشتے داروں کے واقعات،والدین کی نصیحتیں ، بزرگوں کی محبتیں اور دوستوں کی شرارتیں ، گویا ایک دبستان کھل گیا ۔سات سمندر پار گلاسگو میں کئی گھنٹوں تک وطن کی مٹی کی خوشبو مہکتی رہی اور ہمارے بچپن کی یادیں مسکراتی رہیں ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی حیران کن حقیقت ہے کہ پردیس میں بھی میری عمر کے لوگ جب مل کر بیٹھتے ہیں تو موضوع گفتگو پاکستان ہی ہوتا ہے۔ باتوں باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور رات کے نو بج گئے۔ میرا چھوٹا بھائی محمد اکرم پچھلے دنوں ایک برس تک علیل رہا اب اللہ تعالی کے فضل سے اس کی صحت بالکل ٹھیک ہے ، اسے دیکھ کر دل کو بہت اطمینان ہوا ۔ محمد اکرم اور محمد افضل دونوں نے اپنی دکانیں کرائے پر دے دی ہیں اور بھائی ادریس نے اپنی دکان بیٹوں کے حوالے کر دی ہے۔اسی دوران خالہ زاد بھائی محمد اکرم کا بیٹا محمد شعیب آگیا ۔ شعیب ہمیشہ خوبصورت باتیں کرتا ہے اور پاکستان کے بارے میں مثبت سوچتا ہے ،رات دس بجے یہ محفل برخاست ہوئی اور یوں برطانیہ میں قیام کا پہلا دن مکمل ہوا۔ (جاری ہے )