چین نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو مسئلہ فلسطین کا واحد حل قرار دیدیا

چین نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو مسئلہ فلسطین کا واحد حل قرار دے دیا۔ بدھ کے روز چین کے صدر شی جن پنگ اور فلسطینی صدر محمود عباس نے بیجنگ میں چین کے عظیم ہال آف دی پیپل میں ایک تقریب میں شرکت کی۔

تقریب میں چینی صدر نے اپنے فلسطینی ہم منصب کو یقین دہانی کرائی کہ چین فلسطینیوں کی اندرونی مفاہمت کے حصول اور  اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

چینی میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا بنیادی حل 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم (بیت المقدس) ہو۔

چین نے فلسطین کے اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کی بھی حمایت کی ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کے دوران چینی صدر نے کہا کہ چین فلسطین کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔

دراصل یہ سب اس وقت شروع ہوا جب سلطنتِ عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی جس کے بعد فلسطین کے خطے کا کنٹرول برطانیہ کے پاس چلا گیا، اُس وقت فلسطینی خطے میں یہودی کم تعداد یعنی اقلیت تھے جب کہ عربوں کی اکثریت تھی۔

یہودیوں اور  عربوں میں معاملات اس وقت خراب ہوئے جب  1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو اعلانِ بالفور کہا جاتا ہے، اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں برطانیہ آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرےگا  تاہم عرب اکثریت نے اس کی مکمل مخالفت کی۔

بعدازاں پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری جنگ عظیم تک فلسطین میں بے شمار یہودی آئے، اسی دوران یہودیوں اور عربوں میں برطانیہ کی حکومت کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا۔

اقوام متحدہ نے کشیدگی کے یہ حالات دیکھے تو 1947 میں فلسطین کو دو ٹکڑوں (یہودی ریاست اور فلسطینی ریاست) میں بانٹنے کے لیے ووٹنگ کرائی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی کیونکہ یہودی رہنماؤں نے جہاں یہ تسلیم کیا، وہیں عرب اکثریت نے اسے مسترد کردیا۔

اقوام متحدہ نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر دو الگ ریاستیں قائم ہوتی ہیں تو یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہوگا تاہم ووٹنگ رد ہونے کے بعد یہ معاملہ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔

برطانوی حکمران 1948 میں مسئلہ فلسطین حل کروائے بغیر ہی بھاگ کھڑے ہوئے، ان کے جاتے ہی  یہودی حرکت میں آئے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کا زور و شور سے اعلان کردیا، فلسطینیوں کی مخالفت سے یہاں جنگ چھڑ گئی، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فلسطینی اپنے ہی گھروں سے بے گھر کر دیےگئے۔

لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے اسرائیل کا وجود عمل میں لایا گیا اور ان فلسطینیوں کو واپس جانے نہیں دیا گیا۔

اس واقعےکو فلسطینی النکبہ ( تباہی) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہر سال 15 مئی کو یوم نکبہ مناتے ہیں۔

1949 میں اسرائیل نے زیادہ تر خطےکا کنٹرول سنبھال لیا، اس کے بعد اردن  اور  مصر کے حصے میں بھی فلسطین کے کچھ حصے آئے، 1967 کی ایک عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کرلیا۔

یعنی اردن اور  مصر کے حصے بھی اسرائیل نے جنگ میں ہتھیا لیے تاہم 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں مصر کو  سینا کا علاقہ واپس مل گیا۔

1973 کی جنگ کے بعد سے فلسطین کے اکثریتی علاقے پر اسرائیل قابض ہے جب کہ مغربی کنارہ جو کہ عملاً اسرائیل ہی کے قبضے میں وہاں اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی  آباد ہیں، اسرائیل کی جانب سے جارحیت کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور عالمی برادری کی مذمتوں کے باجود فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے یہودی آباد کاری کی جارہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *