اسرائیل فلسطین کشیدگی، امریکی وزیرِ خارجہ مصر پہنچ گئے

امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن مصر پہنچ گئے ہیں جو ان کے دورہ مشرق وسطیٰ کی پہلی منزل ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کریں گے۔

وزیر خارجہ انٹونی بلنکن  پیر اور منگل کو یروشلم اور مغربی کنارے میں واقع شہر رام اللہ پہنچیں گے جہاں وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور فلسطینی رہنما محمود عباس سے ملاقات کریں گے اور ’کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کریں گے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن کے دور اقتدار میں انٹونی بلنکن کا بطور وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کا یہ چوتھا دورہ ہے۔

وزیراعظم نیتن یاہو کی نئی حکومت بننے کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پہلے سے طے تھا تاہم اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ بدترین جھڑپوں کے بعد یہ ناگزیر ہو گیا تھا۔

خیال رہے کہ جمعے کو یروشلم میں یہودیوں کی عبادت گاہ پر ایک مسلح شخص کی فائرنگ کے نتیجے میں سات افراد ہلاک جبکہ دس زخمی ہوئے تھے، جبکہ ایک اور حملہ سنیچر کے روز ہوا تھا۔

ان حملوں سے قبل جمرات کو مغربی کنارے میں واقع فلسطینیوں کے پناہ گزین جنین کیمپ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے بدترین کارروائی کی گئی تھی جس میں 10 فلسطینی ہلاک اور 20 زخمی ہوئے تھے۔

مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی انٹونی بلنکن ممکنہ طور پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا معاملہ اٹھائیں گے۔

مصر کی مشرق وسطیٰ کے معاملات میں بطور ثالث اہم کردار ادا کرنے کی طویل تاریخ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر عبدالفتح السیسی کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر جو بائیڈین کی تنقید کے باوجود مصر کے صدر کو امریکہ ایک اہم شراکت دار تصور کرتا ہے۔

اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلق ہونے کے ناطے بھی امریکہ تاریخی طور مشرق وسطیٰ پر سفارتکاری میں پیش پیش رہا ہے، تاہم ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا انٹونی بلنکن اس مرتبہ کوئی کامیابی حاصل کر سکیں گے۔

مشرق وسطیٰ امور کے ماہر ایرون ڈیوڈ میلر نے حماس اور اسرائیل کے درمیان دو ہفتے تک جاری رہنے والی لڑائی کا ذکر کرتا ہوا کہا کہ امریکی حکام زیادہ سے زیادہ حالات مستحکم رکھنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ مئی 2021 کے واقعات نہ دہرائے جائیں۔

امریکی تھنک ٹینک ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ‘ میں کام کرنے والے سابق فلسطینی عہدیدار غیث العمری کا کہنا ہے کہ امریکہ ویزر خارجہ کا دورہ بطور خود ایک پیغام ہے۔ ’انٹونی بلنکن کچھ نیا کرنے کے بجائے امریکہ کی روایتی پوزیشن کو دہرائیں گے اور محمود عباس سے ’مزید کرنے کا‘ مطالبہ کریں گے تاہم یہ واضح نہیں کہ فلسطینی رہنما کیا کر سکتے ہیں۔‘