عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت کو بہتر بنانے میں مددگار آسان عادات

کیا آپ اکثر باتیں یا چیزیں رکھ کر بھول جاتے ہیں؟ تو ایسا ہر فرد کے ساتھ ہوتا ہی ہے۔

کبھی کبھار ایسا ہونا باعث تشویش نہیں مگر اکثر ایسا ہونا یادداشت کی کمزوری کا اشارہ ہوسکتا ہے۔

مگر اچھی بات یہ ہے کہ چند عام عادات کے ذریعے آپ یادداشت کی تنزلی اور ڈیمینشیا جیسے مرض کا خطرہ کم کرسکتے ہیں۔

یہ بات چین میں ایک دہائی سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق کے مطابق یادداشت روزمرہ کی زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ تنزلی کا شکار ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھتا ہے۔

چین کے نیشنل سینٹر فار نیورولوجیکل ڈس آرڈرز کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت کے لیے مثبت رویوں کے امتزاج سے یادداشت کی تنزلی کی رفتار کو نمایاں حد تک سست کرنا ممکن ہے۔

اس تحقیق میں 29 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا اور اس کا آغاز 2009 میں ہوا تھا۔

تحقیق کے آغاز پر ٹیسٹوں کے ذریعے ان افراد کے یادداشت کے افعال کی جانچ پڑتال کی گئی تھی اور الزائمر امراض کا عندیہ دینے والے عناصر کا جائزہ لیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ طرز زندگی میں 6 عادات کو شامل کرکے یادداشت کی کمزوری کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق صحت کے لیے فائدہ مند غذا کے استعمال، ورزش کو معمول بنانے، سماجی میل جول، دماغی سرگرمیاں، تمباکو نوشی سے گریز اور الکحل سے دوری عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت کے افعال ٹھیک رکھنے کے لیے بہترین عادات ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ پھلوں، سبزیوں، مچھلی، محدود مقدار میں گوشت، دودھ کی مصنوعات، انڈے، دالیں، گریوں اور چائے جیسی غذاؤں کا استعمال دماغی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔

اسی طرح ہر ہفتے کم از کم 2 بار لکھنا، مطالعہ کرنا اور کوئی گیم جیسے تاش کھیلنے سے بھی یادداشت کو فائدہ ہوتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ہر ہفتے 150 منٹ کی معتدل جسمانی سرگرمیاں جیسے چہل قدمی بھی یادداشت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہر عادت کو اپنانے سے یادداشت کی تنزلی کی رفتار میں نمایاں کمی آتی ہے، مگر صحت بخش غذا اس حوالے سے اہم ترین ہے، جس کے بعد دماغی سرگرمیوں اور پھر ورزش کا نمبر آتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ان تمام عادات کو اپنانے والے افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ لگ بھگ 90 فیصد تک کم ہوتا ہے جبکہ 2 سے 3 عادات کو اپنانے سے یہ خطرہ 30 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے۔