سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: عدالت نے 9 مئی مقدمات سے ہٹ کر ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی مثالیں مانگ لیں

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں وزارت دفاع کو ہدایت کی ہے کہ 9 مئی مقدمات سے ہٹ کر ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی مثالیں پیش کریں۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی جہاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل دیے۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس مسرت ہلالی نے کہا میرا کل بھی یہی سوال تھا کہ کیا چارج سے پہلے تفتیش ہوتی ہے؟ جسٹس علی مظہر نے کہا پہلے تفتیش ہوتی ہے اور پھر چارج ہوتا ہے، وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا قانون میں واضح ہے کہ ٹرائل اور فیئر ٹرائل میں کیا فرق ہے۔

جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ ملٹری ٹرائل میں ملزم وکیل نہ کرسکتا ہو تو کیا سرکاری خرچ پر وکیل ملتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے کہا آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔

جسٹم نعیم اختر نے کہا بطور چیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں کہ ملٹری کورٹس فیصلےمیں سادےکاغذ پرلکھ دیا جائےکہ ملزم قصور وار ہے یا نہیں، جب ہائیکورٹس میں اپیل دائر ہوتی تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ دیتا ہے جس میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے، شواہد سمیت طریقہ کاردرج ہوتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو توکیا میڈیا اور ملزم کےاہلخانہ کو رسائی ہوتی ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا قانون میں اہلخانہ اورمیڈیا کو رسائی کا زکر ہےتاہم سکیورٹی وجوہات پر رسائی نہیں دی جاتی۔

دوران سماعت جسٹس نعیم اختر نے وکیل وزارت دفاع کو ہدایت کی کہ 9 مئی مقدمات سے ہٹ کرملٹری کورٹس کے فیصلوں کی مثالیں بھی دیں۔

جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کیس کنڈیکٹ کرنے والے کا تجربہ ہوتا ہے یا پہلی بار بٹھایا جاتا ہے؟ دفاعی آفیسر کا کوئی تجربہ ہوتا یا یا نہیں؟ جج ایڈووکیٹ عدالت میں موجود ہوتا ہے، کیاکورٹ مارشل کر سکتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا جی ججز کے ساتھ ہی جج ایڈووکیٹ بیٹھتا ہے۔

جسٹس مسرت نے کہاسوال یہ ہے ان فیصلوں کا عام شہریوں پرکیا اثر پڑے گا؟ ہمیں ایک بےلگام معاشرے کا سامنا ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہاسیشن جج 20، 20 سال محنت کے بعد سیشن جج بنتے ہیں، آج کل ہمارا ملک اتنا ٹرین ہوچکا ہےکہ 8 ججزکےفیصلےکو 2ججزکہتے ہیں غلط ہے۔

دوران سماعت وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ملٹری کورٹ میں آزادنہ اورغیرجانبدرانہ ٹرائل ہوتاہے، پبلک کوسماعت سننےکا مکمل موقع دیا جاتا ہے اور فیئرٹرائل کے تقاضے پورے کیےجاتےہیں، ملٹری کورٹس آزاد ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے جبکہ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل اتنا ہی اچھا ہے تو پھرسارے کسیز ان کو بھجوا دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *