کونسا کیس ملٹری کورٹ اورکونسا اے ٹی سی میں جائیگا، یہ تفریق کیسے ہوتی ہے؟ سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس میں عدالت نے سوال کیا کہ یہ تفریق کیسے کی جاتی ہے کہ کون سا کیس ملٹری کورٹ اورکون ساکیس انسداد دہشتگردی عدالت میں جائے گا؟
سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی جس دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث نے ملٹری ٹرائل کالعدم قراردینے سے متعلق 5رکنی بینچ کا فیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا کہ فیصلے کے مطابق تمام بنیادی حقوق ہیں جن کی وضاحت کردی گئی ہے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق معطل ہونے کے لیے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے، معاملہ مختلف ہے کہ ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں ہوسکتا۔
جسٹس امین الدین نے کہا بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہو سکتا ہے صرف عملداری معطل ہوتی ہے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیاگیا توبنیادی حقوق معطل نہیں تھے، نہ ہی ایمرجنسی نافذ تھی۔
دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن کیس کا تذکرہ
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا، اس شق کوکالعدم قرار دینے سے مجموعی اثر کیا ہوگا، کیا اب کلبھوشن جیسے ملک دشمن جاسوس کاکیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کےفیصلے سے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے؟ جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیے جی ایچ کیو پر پہلے بھی ایک حملہ ہوا جس میں شہادتیں ہوئیں، کراچی میں ایک دہشتگردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے تو ان کےجہاز کو ہائی جیک کرنےکی کوشش کی گئی، ان واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، شہادتیں ہوئیں، یہ تمام مقدمات کہاں چلائے گئے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کون سا کیس ملٹری کورٹس میں چلےگا اور کون سا نہیں چلے گا، یہ تفریق کیسے کی جاتی ہے؟ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ 9مئی واقعات میں 103ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا اور باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں، یہ تفریق کیسے کی گئی؟ کون سا کیس ملٹری کورٹس میں جائے گا،کون ساکیس انسداددہشتگردی عدالتوں میں جائے گا؟ ملزمان کو فوج کی تحویل میں دینےکا انسداد دہشتگردی عدالتوں کا تفصیلی فیصلہ کدھر ہے؟
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کسی جرم پر کون اور کیسے طے کرتا ہے کیس کہاں جائے گا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمات کہاں چلنے ہیں اس کی تفریق کیسے اور کن اصولوں پر کی جاتی ہے؟
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس اختیار ہے کہ بنیادی حقوق معطل کر سکے، ایگزیکٹو صدر مملکت کے آرڈر پر عملدرآمد کراتی ہے، یہ تمام اختیارات ایگزیکٹوکے ہیں تو کوئی اورکیسے اس طرح کے معاملات دیکھ سکتا ہے؟ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا ہے، اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ شواہد دیکھ کر کرناہوتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا 9مئی کا واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے؟ جوٹرائل فوجی عدالت میں ہو رہاہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پر اسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔
بعد ازاں عدالت نے سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔