بشریٰ بی بی نے احتجاج چھوڑ کر واپس خیبر پختونخوا جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

اسلام آباد: بشریٰ بی بی کی واپسی سے بھونچال ختم ، 2018 سے جاری تنازع باقی ، بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ نے آنسو گیس سے تنگ آکر واپس خیبرپختونخوا جانے کا فیصلہ اور اس پر عمل کیا۔

پاکستان میں سیاسی بھونچال بدھ 27 نومبر کی علی الصبح اچانک اس وقت ختم ہوگیا جب سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے رینجرز اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے پھینکی گئی آنسو گیس سے تنگ آکر احتجاج ختم کرکے واپس خیبرپختونخوا جانے کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمد کیا۔

اس اقدام سے وقتی طوربھونچال تو ختم ہوگیا مگرملک میں سال2018 سے جاری تنازع ختم نہیں ہوا۔ جس کا بنیادی جزو سیاسی اداروں کی فیصلہ سازی میں مرکزی حیثیت کا تسلیم نہ کیا جانا ہے۔

24نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے خیبر پختونخوا سے شروع کیے گئے احتجاجی مارچ کا بظاہر سب سے بڑا مقصد عمران خان کو جیل سے آزاد کرانا تھا مگر پاکستان میں ایک طبقہ سوچ رہا تھا کہ اس احتجاج کی کامیابی نہ صرف سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا سبب بن سکتی تھی بلکہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے مرکزی کردار میں کمی بھی لا سکتی تھی۔

ساری امیدوں کے پیچھے حالات کی یہ غلط تشریح موجود تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کی بڑی طاقت کو دو بدو لڑ کر یا غیر منظم انداز میں احتجاج کے ذریعے پسپا کیا جاسکتا ہے۔ نتیجہ بھی وہی نکلا بشریٰ بی بی کی طرف سے یکدم ہتھیار ڈالنے نے ایسی تمام امیدوں پر پانی پھیردیا۔

منگل اور بدھ کی درمیانی شب کم و بیش آٹھ بجے کے قریب بلیو ایریا میں پی ٹی آئی کے کارکن ایک چھوٹے سے کنٹینر کو ڈی چوک کی طرف لیجانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک اسلام آباد پولیس اور رینجرز کی طرف سے ان پر شدید شیلنگ کی گئی۔ کارکن کنٹینر کو چھوڑ کر کم و بیش 100 گز کے فاصلے پر موجود علی امین گنڈا پور کے قافلے میں چلے گئے اس دوران کنٹینر ایک گھنٹے تک کسی سکیورٹی کے بغیر تھا اورپھر اچانک کچھ نامعلوم لوگ آئے اور انہوں نے اس کنٹینر کو آگ لگا دی۔

بظاہر یہ ایک چھوٹا سے واقعہ تھا مگر اس واقعے نے بعد میں پی ٹی آئی کی آجکل غیر اعلانیہ سربراہ بشریٰ بی بی کے احتجاج ختم کرنے کے فیصلے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا کیونکہ بشری بی بی نے اس محفوظ کنٹینر میں رہنا تھا جو انہیں پولیس و رینجرز کی شیلنگ سے محفوظ رکھتا اور وہ پوری آسائش کے ساتھ کنٹینر کے اندر سے بیٹھ کر احتجاجیوں کو لیڈ کرتیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *