آئی ایم ایف یکم جولائی سے بجلی کے بنیادی نرخوں میں اضافے کا خواہاں
اسلام آباد: آئی ایم ایف نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ بیرونی فنانسنگ کو کم تر کرنے کی کوئی پالیسی اختیار کی گئی تو قرض برقرار رکھنے کا تنگ راستہ بھی خطرے کا شکار ہوسکتا ہے اور اس سے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے بعد کے منظر نامے میں شرح تبادلہ پر دباؤ آسکتا ہے۔
آئی ایم ایف تو یکم جولائی 2024 سے بجلی کے بنیادی نرخوں میں اضافہ بھی چاہتا ہے تاکہ اسے بجلی کا بل لینے پر آنے والے اخراجات سے ہم آہنگ کیا جائے، نئے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے فنڈ کا اسٹاف کہہ چکا ہے کہ پاکستان کے نیچے کی جانب کا خطرہ انتہائی بلند ہے ۔
جہاں نئی حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ایس بی اے کے حوالے سے پالیسیاں جاری رکھے گی وہیں سیاسی بے یقینی بہت اہم عامل بن چکی ہے، سماجی تناؤ کی شورش (جو پیچیدہ سیاسی منظر اور گراں معیار زندگی سے منعکس ہورہی ہے)پالیسی اور اصلاحات کے نفاذ پر بوجھ ڈال سکتی ہے۔
آٗئی ایم ایف کی پانچ رکنی ٹیم اسلام آباد پہنچ چکی ہے اور توقع تھی کہ مشن کے چیف ناتھن پورٹر بھی اسی ہفتے ٹیم میں شامل ہوجائیں گے، رواں ہفتے کے آخر تک آئی ایم ایف کے مزید عہدیدار اسلام آباد میں لینڈ کریں گے اور آئندہ ہفتے سے شروع ہونے والے مذاکرات کا حصہ ہوں گے۔
وزارت خزانہ کےاعلیٰ عہدیداران نے جمعہ کو آئی ایم ایف کی ٹیم سے ڈیٹا کا تبادلہ کیا۔
مالی سال 2025 کےلیے بجلی کی بنیادی قیمتوں کے تعین کا بروقت نوٹیفکیشن مزید گردشی قرضے کے بہاؤ کو روکنے کےلیے ضروری ہے اور اسی طرح مزید ٹیکس اکٹھا کرنے کی کوششیں جن میں ڈیجیٹل مانیٹرنگ کو ادارہ جاتی شکل دینا اور بڑھانے کے اقدامات شامل ہیں۔
مزید برآں حکا م کو چاہیے کہ وہ زرعی ٹیوب ویل میں زرتلافی کی اصلاحا ت کو آگے بڑھائیں جس کےلیے حتمی پلان مالی سال 2024 کے آخرتک کلیئر ہوجانا چاہیے۔
آئی ایم ایف نے تمام طے شدہ ہنگامی اقدامات کا تذکرہ کیا ہے جو کہ ایف بی آر کے ذریعے توقع سے کم ٹیکس جمع ہونے کی صورت میں آمدن جمع کرنے کےلیے اپنائے جانے چاہئیں۔
اسٹینڈ بائی پروگرام کے انتظامی اہداف کے حصول کےلیے اضافی کوششوں کی ضرورت ہے، پرچون فروشوں سے اضافی آمدن جمع کرنے کی کوششوں میں تاخیر ہوئی ہےاور تمباکو کے شعبے میں بھی چیلنجز برقرار ہیں باوجود اس کے کہ وہاں ٹریک اینڈ ٹریس نظام کا نفاذ لازمی قراٖر دیا گیا تھا، اسمگلنگ اور چوری چھپے پیداوار بھی جاری ہے باوجود اس کے کہ غیر رسمی پیداوار اور درآمدات کی روک تھام کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
ایف بی آر اپنا ٹریک اینڈ ٹریس نظام اضافی اشیا جیسا کہ چینی، کھاد اور سیمنٹ تک پھیلا یا ہے تاکہ اسے ان سیکٹرز کی غیر رسمی مارکیٹ پر سخت کنٹرول حاصل ہوسکے، تاہم ایف بی آر نے 11 لاکھ افرا د کو کامیابی کے ساتھ نیا فائلر بنادیا ہے اور اس کے اقدامات کے نتیجے میں ایک لاکھ 70 ہزار999 نئے ریٹرنز داخل ہوئے ہیں جبکہ باقی ماندہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس جمع کراتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے پروگرام کے مکمل ہونے کے بعد اگربیرونی فنانسنگ میں تاخیر ہوئی تو اس سے قرض کےلیے بینکوں پر حکومت کی جانب سے دباؤ مزید بڑھے گا جس سے نجی شعبہ سرمائے کے حصول کے عمل سے مزید باہرنکلے گا۔
جغرافیائی و سیاسی وجوہات کی بنا پر اجناس کی بڑھی ہوئی قیمتیں اور ان کی ترسیل میں رکاوٹوں اور عالمی سطح پر سخت مالیاتی شرائط کا بیرونی استحکام پر مخالفانہ اثرہوگا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ جمعہ کو جاری کی گئی جس میں پاکستان کےلیے تیسری قسط کے اجرا کےلیے مکمل کیا گیا دوسرا جائزہ موجود ہے۔ رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے کہ گزشتہ 9 ماہ میں مسلسل طاقتور پالیسیاں نافذ کی گئیں اور یہ معیشت کو کنارے سے استحکام کے راستے پر لائی تو ہیں۔
بتدریج بڑھتی ہوئی معاشی ریکوری جڑ پکڑنے لگی ہے اور حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں خاصی کمی آئی ہے، اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کی زیادہ آمد کا ایڈوانٹیج لیا ہے اور اسے بیرونی دباؤ کم ہوا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر دوبارہ سے بھرنا شروع کرنے کےلیے جاری خسارے کو اعتدال میں لایاجارہا ہے، مالیاتی کارکردگی بھی بہتر ہوئی ہے اور حکومت نے ایچ ون میں بڑا بنیادی سرپلس بھیجا ہے۔
یہ اجتماعی طور پر اطمینان بخش کارکردگی بتاتی ہے کہ اگر استقامت رہے اور پالیسیوں کے نفاذ میں تسلسل ہوتو مثبت نتائج آسکتے ہیں جن سے اعتماد بڑھنتا ہے اور معاشی ریکوری کواسپورٹ ملتی ہے۔ اگرچہ ایس بی پروگرام نے اپنے تنگ نتائج وسیع تر پیمانے پر حاصل کیے ہیں لیکن سامنے موجود چیلنجز بہت اونچے ہیں اور ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم موثرطور پر ان سے نمٹیں۔
پاکستان کی ملیاتی اور بیرونی زدپذیریاں بدستور بڑھی ہوئی ہیں اور اس میں قرض کو برقرار رکھنا اور ری فنانسنگ کا رسک بھی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کا سرامائے کے حصول سے باہر نکلنا بھی اس کا شاخسانہ ہوسکتا ہے ساختیاتی کمزوریاں پیدااریت پر، سرمایہ کاری پر اور ترقی پر حدیں عائد کرتی ہے۔
ایس بی اے پروگرام نے پاکستان کے ساختیاتی چیلنجوں کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کےلیے مسلسل ایڈجسٹمنٹس چاہیے ہوں گی اور قرض دہندگان کی مسلسل حمایت موجودہ پروگرام سے آگے بھی چاہیے ہوگی۔
اس حوالے سے پاکستانی حکام کی متبادل انتظامات میں دلچسپی کا خیرمقدم ہونا چاہیے کہ وہ آئندہ برسوں میں پالیسی ایڈجسٹمنٹ کریں گے تاکہ پاکستان میڈیم ٹرم کی پائیداریت بحال کر سکے اور مضبوط و شمولیتی ترقی ےلیے راستہ ہموار کر سکے۔
حکام کو چاہیے کہ وہ مالی سال 2024 کا 23 کھرب کا ہدف حاصل کریں، پہلے جائزے کے وقت وفاقی ترقیاتی پروگرام پی ایس ڈی پی میں 61 ارب روپے کی کمی کی گئی جبکہ اسٹیٹ بینک کے منافع میں کمی کو پورا کرنے کےلیے غیر ضروری زرتلافی کم کرکے 40 ارب روپے بچائے گئے لیکن دوسری جانب اس کے برخیلاف 49 ارب روپے کے اضافی اخراجات متوقع ہیں کیونکہ فوج کی تنخواہں اور پنشن کے بل میں غیر متوقع اضافہ کرنا پڑا۔
حکام نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ تمام اخراجات کو بندرکھیں گے ، سپلیمنٹری گرانٹ لینے سے احتراز کریں گے اور 250 ارب روپے کا ہنگامی صورت حال کےلیے رکھاہوا فنڈبجٹ کے کھاتوں میں استعمال کرنے سے بچیں گے۔
صوبوں نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ دسمبر 2023 کے بجٹ سرپلس کے حصول کا خیال رکھیں گے بالخصوص پمجابنے موجودہ ترقیاتی اخراجات کو بھی کمر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔