لائیو: صدر پاکستان کے انتخاب کیلئے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ووٹنگ جاری

صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جاری ہے۔

صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل صبح 10 سے شام 4 بجے تک جاری رہے گا، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں پولنگ کا عمل شروع ہوا تو سب سے پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ نے کاسٹ کیا، وزیراعظم شہباز شریف، صدارتی امیدوار آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور اسحاق ڈار نے بھی ووٹ کاسٹ کیے۔

سندھ اسمبلی میں موجود تمام ارکان نے ووٹ کاسٹ کر دیا، سندھ اسمبلی میں 161 ارکان اسمبلی نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا، جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ جی ڈی اے پہلے ہی صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں بھی 46 ارکان نے ووٹ کاسٹ کر دیئے، جے یو آئی ف، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کے اراکین نے پولنگ میں حصہ نہیں لیا۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف نے صدارتی الیکشن میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے، جے یو آئی ف کے قومی اسمبلی میں 9 اور سینیٹ میں 4 ووٹ ہیں۔

اس کے علاوہ ترجمان جماعت اسلامی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے بلوچستان اسمبلی سے امیدوار عبدالمجید بادینی اور مولانا ہدایت الرحمان صدارتی الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کریں گے۔  گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے بھی صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔

صدارتی انتخاب میں حکومتی اتحاد کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری اور سنی اتحاد کونسل و دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی امیدوار ہیں۔

صدارتی الیکشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور پنجاب اسمبلی کیلئے الیکشن کمیشن کے ممبر نثار درانی کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا ہے۔

سینیٹر شیری رحمان کو آصف علی زرداری کی پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا ہے جبکہ سینیٹر شفیق ترین، محمود خان اچکزئی کے پولنگ ایجنٹ ہیں۔

سندھ اسمبلی کیلئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور بلوچستان اسمبلی کیلئے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ پریذائیڈنگ افسر ہیں۔

سندھ اسمبلی کی عمارت الیکشن کمیشن کے سپرد

سیکرٹری سندھ اسمبلی نے ایوان کو صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ اسٹیشن قرار دیا گیا ہے اور سندھ اسمبلی کی عمارت الیکشن کمیشن کے حوالے کر دی گئی ہے۔

سندھ اسمبلی میں مجموعی طور پر 162 ارکان نے حلف اٹھایا ہے، ایوان میں پیپلز پارٹی کے 116، ایم کیو ایم کے 36 اور جماعت اسلامی کا ایک رکن ہے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے آزاد اراکین کی تعداد 9 ہے۔

صدارتی الیکشن کے لیے بیلٹ باکس اور دیگر سامان پنجاب اسمبلی میں پہنچا دیا گیا ہے جبکہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ون عبدالودود خان اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ٹو انعم پروین پنجاب اسمبلی پہنچ گئی ہیں۔

بلوچستان اور پختونخوا اسمبلی ہال کو پولنگ اسٹیشن کا درجہ دیا گیا ہے

بلوچستان اسمبلی کے 64 ارکان صدر مملکت کےانتخاب کے لیے ووٹ کا استعمال کر سکیں گے، صدارتی انتخاب کے سلسلے میں اسمبلی میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی ہال کو صدارتی انتخابات کیلئے پولنگ اسٹیشن کا درجہ دے دیا گیا ہے، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ محمد ابراہیم پریزائڈنگ افسر ہوں گے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے 118 ارکان صدرکے انتخاب کیلئے ووٹ پول کریں گے۔

ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ

صدارتی انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کا معاملہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے، ایوان زیریں اور ایوان بالا کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہوگا لیکن صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے صوبے کی اسمبلی کے رکن کا ایک ووٹ شمار نہیں ہو گا۔

آئین کے جدول 2 کی شق 18 کے (ب) کے مطابق ’کسی صوبائی اسمبلی میں ہر ایک امیدوار کے حق میں ڈالے ہوئے ووٹوں کی تعداد کو اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں فی الوقت سب سے کم نشستیں ہوں ضرب دیا جائے گا اور اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں ووٹ ڈالے گئے ہوں تقسیم کیا جائے گا‘۔

آئین کے اس جدول کے تحت بلوچستان اسمبلی کا ایوان سب سے کم ارکان پر مشتمل ہے جہاں 65 اراکین ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے 65 ارکان کو پنجاب کے 371 کے ایوان پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی کے5.7 ارکان کا ایک صدارتی ووٹ تصور ہوگا۔

اسی تناسب سے 168 کے سندھ اسمبلی کے ایوان میں 2.6 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہو گا اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے 145 کے ایوان میں 2.2 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔

صدارتی انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوگا جس میں ہر رکن کو ایک بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا اور جس رکن کو بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا اس کے نام کا اندراج کیا جائے گا جبکہ بیلٹ پیپر پر متعلقہ پریذائیڈنگ آفیسر کے دستخط ہونگے۔

بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے نام حروف تہجی کے نام سے درج ہوں گے اور ووٹ دینے والا رکن پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے نشان لگا کر ووٹ دے گا

صدارتی انتخاب میں جس امیدوار کے ووٹ مدمقابل حریف سے زیادہ ہوں گے وہ کامیاب تصور ہوگا۔

انتخاب کے نتیجے میں جو بھی صدر مملکت منتخب ہوگا اس سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حلف لیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *