واپس پاکستان پہنچنے کی خوشی
پانچ ہفتے برطانیہ میں (آخری قسط)
تحریر محمد اسلم
میں مئی 2023 کو پانچ ہفتے کے لیے برطانیہ گیا- جانے سے پہلے میں نے سوچا تھا کہ وہاں جا کر آرام کروں گا مگر سچ یہ ہے کہ تحقیق کا رجحان رکھنے والے آدمی کی قسمت میں آرام نہیں ہے- میرے جیسی طبیعت کا آدمی ہر بات کو نوٹ کرتا ہے اور اس بات یا واقعے کو تحریر میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے یہ عادت میرے جیسے آدمی کی زندگی کا روگ بن جاتی ہے۔ میں نے 35 دن برطانیہ میں گزارے اور اس سفر پر 32 کالم لکھے۔ اللہ بھلا کرے ٹوبہ ٹیک سنگ سے بابا غیاس الدین جانباز کے داماد طارق سعید کا ،انہوں نے 15 دسمبر 2023 کو وٹس ایپ پر پیغام کیا کہ سال 2023 ختم ہو رہا ہے، کوشش کریں کہ 31 دسمبر سے پہلے سفر نامے کی اقساط بھی مکمل ہو جائیں- طارق سعید کے توجہ دلانے پر آج اس سفر نامے کا آخری کالم لکھ رہا ہوں-
گلاسگومیں میرے بہن بھائیوں کے علاوہ میرے مامووں کی اولاد بھی مقیم ہے۔ ان کے علاوہ میرے خالہ زاد بھائی محمد اکرم کا بیٹا شعیب اور ماموں حاجی محمد یوسف کا نواساعثمان بھی گلاسکو میں رہتے ہیں۔گلاسگو میں قیام کے دوران ماشااللہ ان دونوں سے اکثر ملاقات رہی۔ شعیب 2008 میں برطانیہ گیا تھا، اس سے پہلے اس نے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ گلا سگو پہنچ کر اس نے پہلے شیر برادرز کے ہاں ملازمت کی، پھر چند برس بعد اپنی گریٹنگ کارڈز (GREETING CARDS)کی دکان بنا لی- دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ماشااللہ بہت ترقی کی،اپنا مکان بھی خریدا، اس کا رہن سہن بھی اچھا ہے۔ شعیب کا کنبہ ماشااللہ بڑا ہے، اس نے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے بہن بھائیوں کی شادیاں کیں۔ گلاسگو کے اس سفر میں شعیب مسلسل میرا معاون رہا اور میرے ساتھ مختلف جگہ جاتا رہا- ہم نے لندن اور دیگر شہروں کا دورہ بھی کار میں اکٹھے ہی کیا۔ 25 جون کو میری پاکستان واپسی سے دو روز قبل شعیب نے ضیافت کا اہتمام کیا اور میرے لیے خاص طور پرSALMON FISH بنائی کیونکہ اسے میری پسند معلوم تھی۔ بڑے بھائی ادریس اور چند دیگر مہمان بھی مدعوتھے، شعیب نے فش پکوڑا، چنا چاٹ اور سکاٹ لینڈ کی سافٹ ڈرنک IRN BRU کا بھی اہتمام کر رکھا تھا-
میں شعیب کے گھر دعوت میں شرکت کے لیے گیا تو عثمان نذیر میری کار میں میرے ساتھ ہی تھا اور مجھے اسے ڈراپ کرنا تھا- عثمان نذیر اور شعیب آپس میںہم زلف بھی ہیں لیکن ان میں کچھ غلط فہمیاں تھیں جس کی وجہ سے عثمان نیچے کار میں بیٹھا رہا میں نے جب شعیب کو اس بارے میں بتایا تو اس نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور دوسری منزل سے نیچے آکر عثمان کو اپنے ساتھ اوپر لے آیا، اس طرح ان میں کسی حد تک صلح ہو گئی ،سب نے کھانا کھایا اور خوب باتیں ہوئیں- عثمان کے والدین وفات پا چکے ہیں اس نے گزشتہ چند برس اپنے چھوٹے بھائی زبیر نذیر کے پاس سویڈن میں گزارے جہاں زبیر کا ٹیک اوے(TAKE AWAY) کا کاروبار ہے۔ عثمان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو گلاسگو میں ہی رہتے ہیں، ضیافت کے بعد ہم اپنے گھر وںکو لوٹ آئے۔
26 جون کو گلاسگو میں میرا آخری دن تھا۔ چند روز پہلے میرا بیٹا علی مرتضی اپنے بچوں کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے فیصل آباد سے گلاسگو پہنچاتھا، وی ایک علیحدہ فلیٹ میں مقیم تھا- علی مر تضی اور بچوں کے پاس جا کر وقت گزارا- بڑے بیٹے ابوبکر کی پہلی اہلیہ کے تینوں بیٹے ابو سعد، ابو زید اور ابو سفیان بھی وہیں آگئے ، ان سے بھی سے الوداعی ملاقات ہوئی ، اپنے پوتوں کو دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ ان سے دوبارہ نجانے کب ملاقات ہوگی۔شام تک مختلف عزیز و اقارب مجھ سے ملنے کیلئے گھر آتے رہے ، اسی طرح رات کے 10بج گئے، رات کے 12بجے میں سونے کیلئے چلا گیا۔
27 جون کو میری گلاسکو سے 50 میل دور ایڈ نبرا شہر سے پاکستان کے لیے فلائٹ تھی- صبح 10 بجے گھر سے نکلنے کا پروگرام تھا بھائی ادریس اور میرا بیٹا علی مجھے چھوڑنے جا رہے تھے۔ 27 جون کی صبح میں نے آٹھ بجے اٹھ کر تیاری شروع کر دی- موسم بہت شاندار تھا ،میرے گلاسگو میں قیام کے دوران ہرروز دھوپ نکلتی رہی اور درجہ حرارت 18 سے 21 سینٹی گریڈ تک رہا حالانکہ یہاں پر اکثر موسم ابر آلود رہتا ہے- 10 بجے بھائی ادریس اور علی پہنچ گئے، میرا چھوٹا بھائی اکرم بھی خدا حافظ کہنے کے لیے کار پر آگیا- میں نے فاروق ،اپنی بیٹی اور نواسے نواسیوں کو الوداع کہا- میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے گلاسگو میں قیام کے دوران میری بہت خدمت کی، میری سہولت کا خیال رکھا اور کھانے پینے میں بھی میری پسند کو اہمیت دی۔
سب کو خدا حافظ کہہ کر میں بھائی ادریس اور علی کے ساتھ کار پر بیٹھا اور ہم ایڈنبرا کے لیے روانہ ہو گئے- گلاسگو سے ایڈنبرا تک ایک گھنٹے کا سفر تھا، موٹروے بہت مصروف تھی- ہم صبح 11 بجے ایڈ نبرا پہنچ گئے۔ ایئرپورٹ کے ساتھ کئی منزلہ پارکنگ ہے لیکن ہمیں نیچے ہی جگہ مل گئی-
مجھے قطر ایئر ویز کی پرواز پر سفر کرنا تھا۔ 45 کلو سامان اور 5کلو ہینڈ بیگ لے جانے کی اجازت تھی- میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جب چوہدری سرور گورنر پنجاب تھے تو لاہور سے گلاسگو کے لیے ڈائریکٹ فلائٹس تھیں جس سے لوگوں کو بہت آرام تھا اور وہ آٹھ گھنٹوں میں پاکستان پہنچ جاتے تھے، پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی اور یہ فلائٹس بند ہو گئیں- اب زیادہ تر پاکستانی قطر ایئر ویز یا عرب امارات ایئر لائنز کے ذریعے سفر کرتے ہیں- پی آئی اے اب یہاں آتی ہی نہیں۔
میں نے بھائی ادریس اور بیٹے علی کو خدا حافظ کہا اور خود دوسری منزل پہنچا جہاں چیکنگ اور سکریننگ ہو رہی تھی۔ وہاں بہت رش تھا۔ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے پانچ سو کے قریب افراد موجود تھے۔ ایڈنبرا ایئر پورٹ پر چیکنگ کے بعد ہم اپنے اپنے لاؤنج میں چلے گئے۔ شیشے سے نظر دوڑائی تو باہر ہر دو تین منٹ کے بعد جہاز چڑھ اور اتررہے تھے، میں نے یہ منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کیا- پھر مجھے خیال آیا کہ نماز ظہر کا وقت ختم نہ ہو جائے، میں نے واش روم تلاش کر کے وضو کیا اور اپنی واسکٹ کو فرش پر بچھا کر نماز ادا کی، کسی گورے یا غیر ملکی نے تعجب کا اظہار نہ کیا- ہماری لاؤنج میں 200کے قریب ایشیائی لوگ تھے جن میں زیادہ تر جاپانی اور چینی تھے، 25کے قریب گورے بھی اس جہاز سے سفر کر رہے تھے۔ جہاز نے قطر کے شہر دوحہ میں رکنا تھا ، میرا دل پاکستان واپسی کے لیے مچل رہا تھا کہ میں جلدی سے جلدی پاکستان پہنچ جاؤں- دو بجے اعلان ہوا کہ مسافر طیارے میں بیٹھ جائیں، جہاز فل تھا- اس نے دوپہرتین بجے پرواز شروع کی اور چند منٹوں میں 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا، نیچے بادل روئی کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ دوران پرواز، مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک نو ماہ کی بچی رونے لگی اور پانچ گھنٹے تک مسلسل روتی رہی۔میرا دل بہت دکھی ہوا کہ اس کے والدین نے اسے چپ کرانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ،یہ پاکستانی جوڑے کی بچی تھی۔
قطر ایئر ویز کا کھانا اچھا نہ لگا اس کے مقابلے میں عرب امارات ایئر لائنز کا کھانا بہت لذیذہوتا ہے۔ قطر ایئر ویز نے جو کھانا دیا اس میں زیادہ چیزیں ابلی ہوئی تھیں جس سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ ان لوگوں نے کوریا، تائیوان اور چین کے لوگوں کا مرغوب کھانا پیش کیا ہے جبکہ ہم پاکستانی مرچ مصالحہ والی چیزیں پسند کرتے ہیں- جہاز نے ایڈنبرا سے اڑان پکڑنے کے بعدبرطانیہ کے اوپر پرواز جاری رکھی اور پھر ہالینڈ کی فضائی حدود میں داخل ہوا ،جس کے بعد جرمنی اور یوگو سلاویہ سے ہوتا ہوا ترکی کے اوپر سے گزرا- جوں جوں جہاز پاکستان کی طرف رواں دواں تھا، برطانیہ میں گزرے ہوئے پانچ ہفتے مجھے یاد آ تے تھے، میں نے برطانیہ میں بہت مصروف وقت گزارا ،میں نے برطانیہ جانے سے پہلے سوچا تھا کہ اس بار آرام کروں گا مگر شاید صحافی حضرات کی قسمت میں آرام نہیں- جہاز میں وائی فائی کی سہولت نہ تھی جس کی وجہ سے اکثر مسافر اونگھ رہے تھے۔ جہاز ترکی اور پھرعراق کے شہر موصل کے اوپرسے پرواز کرتا ہوا رات 11بجے قطر پہنچا۔ پرواز بہت ہموار تھی۔ دوحہ ایئرپورٹ بہت بڑا ہے۔ یہاں ملازمین کی اکثریت سیاہ فارم لوگوں کی تھی- ہم یہاں اڑھائی گھنٹے رکے مجھے دوحہ ایئرپورٹ پر 80 فیصد گورے مسافر نظر آئے جو مختلف ممالک سے آ جا رہے تھے- میں نے مسجد تلاش کی اور ایئرپورٹ کی بلڈنگ کے اندر ہی عشا کی نمازیں ادا کی۔ پھر قطر ائیرویز کا دوسرا جہاز لاہور کے لیے روانہ ہوا جس میں 100 فیصد مسافر پاکستانی تھے، ایک بھی گورا نہیں تھا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر ملکی اب بھی پاکستان کا سفر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں- دوحہ سے چار گھنٹے کی پرواز کے بعد میں صبح پونے آٹھ بجے لاہور پہنچا، پاکستان پہنچ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ 10 منٹ میں سامان کلیئر ہو گیا۔ باہر بہت دھوپ تھی، یورپ کے ٹھنڈے ماحول سے پاکستان آکر اس دھوپ نے کچھ پریشان کیا- میں باہر نکلا تو ایئرپورٹ پر میرا بیٹا بلال اس کی اہلیہ اور بچے قاسم اور فاطمہ مجھے لینے کے لیے پہنچے ہوئے تھے، انہیں دیکھ کر دل بہت خوش ہوا ، اس طرح پانچ ہفتے پر محیط میرا سفر برطانیہ اختتام پذیر ہوا-
۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)۔۔۔۔۔۔۔