وطن سے دور رہنے والے پاکستانیوں کے احساسات
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط نمبر30)
تحریر: محمد اسلم
بہتر روزگارکی تلاش میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں ۔ان پاکستانیوں کی اکثریت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے۔یوں تو ہر دوسرے تیسرے گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک گیا ہوا ہے لیکن کئی خاندان ایسے بھی ہیں جس کے ہر گھرانے سے افراد بیرون ملک مقیم ہیں ۔میرے تین ماموں کی اولاد بھی برطانیہ میں مقیم ہے ۔برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں کم و بیش 25 لاکھ پاکستانی بستے ہیں، ان میں سے 14 لاکھ پاکستانیوں نے برطانیہ کو اپنا مسکن بنا رکھا ہے۔ وطن سے دور رہنے والے ان پاکستانیوں کے دل وطن کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے حالات خراب ہوں تو سمندر پار پاکستانی پریشان ہوتے ہیں اور کڑھتے ہیں ۔ یورپ ،امریکہ اور آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی وطن میں برے حالات پر مشرق وسطی میں بسنے والے پاکستانیوں سے بھی زیادہ پریشان رہتے ہیں کیونکہ سعودی عرب اور مشرق وسطی میں تو اظہار رائے کی ازادی نہیں ہے، اس کے برعکس یورپ میں بات کرنے پر کوئی پابندی نہیں اور انسانی حقوق کی صورتحال عمدہ ہے جبکہ پاکستان میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں یہ سوچنا بھی ممکن نہیں کہ پولیس والے کسی کے گھر میں گھس جائیں اور خواتین کو ہراساں کریں ۔وہاں مقیم پاکستانیوں کو جب پاکستان سے ایسی خبریں پہنچتی ہیں تو وہ بجا طور پر بہت پریشان ہوتے ہیں۔ میرے دورہ برطانیہ کے دوران پاکستانیوں نے بیسیوں مرتبہ پاکستان کے خراب حالات اور آزادی رائے پر پابندی پر دکھ کا اظہار کیا۔21 جون کو مجھے برطانیہ آئے ہوئے تقریباً ایک ماہ گزر چکا تھا اور میری پاکستان واپسی میں تقریباً ایک ہفتہ باقی رہ گیا تھا۔ اس ایک ماہ کے دوران میں نے اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے ملاقاتیں کیں ، ابھی کچھ احباب سے ملاقاتیں باقی تھیں ۔
میرے چھوٹے ماموں چوہدری غلام نبی کے چاروں بیٹے بھی گلاسگوہی میں مقیم ہیں۔ ماموںزاد بھائی محمد مشتاق سے تو ہر دوسرے تیسرے روز ملاقات ہوتی رہی، وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور ان کا کام بہت اچھا چل رہا ہے ۔ دوسرے ماموں زاد بھائی 68 سالہ محمد طارق کے ساتھ مجھے بہت لگاؤ ہے اور وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ۔ اس نے مجھے اپنے گھر پر مدعو کیا ۔ دراز قد اور گورے رنگ کا طارق گلاسگو کے اکثر پاکستانیوں کی طرح پاکستان کے حالات پر بہت آزردہ تھا ۔وہ کہنے لگا کہ اگر خوبی قسمت سے پاکستان کو عمران خان کی صورت میں ایک اچھا لیڈر مل ہی گیا تھا تو یہ لوگ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں۔( اس وقت تک عمران خان کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا )طارق نے ملکی سیاست پر بات کرتے ہوئے میاں نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور فضل الرحمن کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس خوب نکالی۔ میں نے اس کی باتیں سننے کے بعد کہا کہ یار! اتنا مت کڑھا کرو ۔حالات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف ظاہری اسباب دیکھتے ہیں اور یہ بات بھلا دیتے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات بھی موجود ہے۔ اس کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ انسان بظاہر جو بھی کرتا رہے، حتمی فیصلہ تو اللہ تعالی ہی کا ہوتا ہے اور ہمیں فیصلہ تقدیر پر چھوڑ دینا چاہیے، آخر مشیت الہی بھی کوئی شے ہے ۔ طارق بہت زیادہ حساس ہے۔ پاکستان کی گزشتہ 50 سال کی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہنے لگا کہ کیا وجہ ہے کہ پوری دنیا ترقی کر رہی ہے لیکن پاکستان پیچھے کی طرف جا رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اسی کرپٹ نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں؟ ملک میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا لیکن قوم اس نظام کو بدلنے کے لیے سامنے نہیں آتی۔کسی دور میں پاکستان پورے خطے میں سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والا ملک سمجھا جاتاتھا لیکن آج ہم بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں ؟طارق کے ہر سوال سے اس کے جذبہ حب الوطنی کا اظہار ہو رہاتھا ، سچ یہ ہے کہ سات سمندر پار رہنے والے یہ پاکستانی ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی ہر لمحہ اپنے وطن کے بارے میں سوچتے ہیں اور ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالی سے پاکستان کی خیر مانگتے ہیں ۔طارق کے سوالات حقائق پر مبنی تھے اور میرے پاس طارق کے کئی سوالات کا کوئی فوری جواب نہیں تھا ۔
ہم نے دوسرے روز طارق کے چھوٹے بھائی یاسین سے ملنے کا پروگرام بنایا ۔ اگلے روز میں، میرا چھوٹا بھائی افضل اور ماموں زاد بھائی طارق کار پر شام آٹھ بجے یاسین کے پاس پہنچے۔ یاسین میرے مامو ں چوہدری غلام نبی کے چاروں بیٹوں میں سب سے چھوٹا ہے اور شعر و ادب کا ذوق رکھتا ہے۔ یہ بھی پاکستان کے سیاسی حالات سے باخبر رہتا ہے ۔یاسین نے بتایا کہ وہ چند ماہ قبل بہت زیادہ بیمار ہو گیا تھا اور اب اس کی طبیعت قدرے بہتر ہے ۔ میں نے طارق سے پاکستان واپسی کے بارے میں کہا تو وہ بولا کہ جی تو بہت چاہتا ہے لیکن نا گزیر حالات کی وجہ سے میں 30سال سے پاکستان نہیں جا سکا ۔اس کا جواب سن کر میں نے سوچا کہ برطانیہ کے پرسکون ماحول میں زندگی گزارنے والا کوئی پاکستانی موجودہ حالات میں آخر کیوں پاکستان واپس آئے گا ،کوئی آنا بھی چاہے تو پاکستان کے حالات اس کا ارادہ بدل دیتے ہیں۔ 1980 کے عشرے میں پاکستان میں بم دھماکے شروع ہوئے اور پھر جنرل مشرف کے دور میں پاکستانی طالبان منظر عام پر آئے جنہوں نے فوج پر حملے شروع کر دیے۔ گزشتہ دو تین برس میں ملک کے سیاسی اور معاشی حالات مزید خراب ہو گئے ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات نے دشمنی کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ سیاسی عدم استحکام عروج پر پہنچ چکا ہے اور اختلاف رائے کو مخالفت بنا لیا گیا ہے۔ان حالات میں بیرون ملک مقیم پاکستانی رنجیدہ ہیں، ان کی وطن واپسی کے امکانات روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں ۔
قصہ مختصر !گزشتہ روز طارق بھائی سے جو باتیں ہو رہی تھیں ،یاسین نے بھی اس سے ملتی جلتی گفتگو کی۔ وہ مجھ سے پاکستان کے حالات کے بارے میں پوچھتا رہا، وہ پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورت حال پر بہت فکر مند دکھائی دے رہا تھا ۔میں نے اسے بھی دلاسہ دیا اور کہا کہ اللہ تعالی پر بھروسہ رکھو۔ پاکستان قدرت کا تحفہ ہے جو ہمیں 27 رمضان البارک کے مقدس لمحات میں ملا تھا۔ یہ ملک ہمارے بزرگوں نے کلمے کی بنیاد پر بنایا تھا ۔اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا خون شامل ہے۔اللہ تعالیٰ شہیدوں کی قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہونے والی اس نعمت کی حفاظت ضرور کرے گا ۔
آج پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے ہی گناہوں کی سزا ہے۔ میں نے یاسین سے کہا ، مجھے یقین کامل ہے کہ ہماری قوم آج بھی حقوق العباد کی ادائیگی پر توجہ د ے اور خلوص نیت سے ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دے تو اللہ تعالی ہم پر رحم فرمائے گا اور پاکستان کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)