برسوں پہلے گم شدہ عبداللہ کی تلاش کا مشن
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 27)
تحریر: محمد اسلم
کارڈف سے گلاسگو واپسی کے طویل سفر میں میں نے اپنے بھتیجے شعیب کو بتایا کہ میں نے کارڈف میں کبھی رہا ئش تو نہیں رکھی مگر اس شہر سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں، یہ 1979 کی بات ہے جب میں فیصل اباد میں” گفٹوسپر سٹور ”چلا رہا تھا اس سپر سٹور میں غیر ملکی سامان فروخت ہوتا تھا۔ فیصل آباد میں اس دور میں چند ہی دکانیں تھیں جن میں امپیریل لیدر صابن ،ٹشو پیپر ،بچوں کے کپڑے، ”کینن”کمپنی کی نپل اور بوتلیں وغیرہ ملتی تھیں اسی لیے صرف فیصل آباد ہی نہیں بلکہ سرگودھا، لالیاں ،جھنگ ،سمندری، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جڑانوالہ سے بھی صاحب ثروت گھرانوں کی خواتین خریداری کے لیے ”گفٹو ” اور دیگر سپر سٹورز کا ہی رخ کرتی تھیں ۔ انہی دنوں میرے بھائیوں نے مجھے دو ماہ کے لیے گلاسگو بلایا ۔میں برطانیہ روانگی سے قبل اپنے ماموں حاجی محمد یوسف سے ملنے کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نواحی گاؤں” بھلیر” گیا ۔میں ایک گھنٹہ ان کے پاس بیٹھا رہا ، ان کا بڑا بیٹا عبداللہ 1965 کے آخر میں اپنے والد کی رضامندی کے بغیر برطانیہ چلا گیا تھا۔ برطانیہ جا کر عبداللہ واپس نہ آیا بلکہ سال، ڈیڑھ سال کے بعد اس نے اپنے والدین سے رابطہ بھی منقطع کر لیا تھا۔
سرخ و سفید ،دبلا پتلا عبداللہ برطانیہ پہنچ کرچھ ماہ تو برمنگھم کے قصبے بلیک ہیتھ میں میرے والد کے پاس رہا ،وہ گریجویٹ تھا لیکن اس نے بلیک ہیتھ کے قصبے میں اپنے مزاج کے خلاف فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔ چھ ماہ گزرے تو کارڈف سے یعقوب اور نذیراحمد اسے لینے کے لیے بلیک ہیتھ آگئے اور عبداللہ اپنے دوستوں کے ساتھ کارڈف چلا گیا ۔ ڈی ٹائپ کالونی کے محمد یعقوب ، افغان آباد کا نذیر اور ٹوبہ کے نواحی گاؤں ”بیریانوالہ” کا یاسین پہلے سے کارڈف میں موجود تھے ،عبداللہ کے پہنچنے سے چار دوستوں کا گروپ مکمل ہو گیا ۔ عبداللہ کارڈف کے ایک ریسٹورنٹ میں بطور ویٹر ملازمت کرنے لگا ۔اس نے ایک سال تو اپنے گھر والوں سے رابطہ رکھا مگر پھر رابطہ مکمل طور پر منقطع کر لیا جس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی شاہ خرچی کی وجہ سے اس کے پاس پیسے نہیں بچتے تھے اور وہ گھر والوں کو یہ صورت حال بتانا نہیں چاہتاتھا ۔ بیٹے کی خیر خبر نہ ملی تو ماں کا برا حال ہو گیا ، میرے ماموں حاجی محمد یوسف انتہائی باوقار اور گہری شخصیت کے مالک تھے لیکن شفقت پدری تو اپنا اثر دکھاتی ہے۔ عبداللہ کے والد اور والدہ دونوں بیٹے کی واپسی کے لیے بزرگوں سے دعائیں کرواتے حتی کہ تعویذ بھی لیتے مگر عبداللہ کو نہ آناتھا اور نہ وہ آیا۔1976 میں عبداللہ کی والدہ کا اسی غم میں انتقال ہو چکا تھا۔ وہ بیٹے کا انتظار میں گھلتی رہیں اور 57 برس کی عمر میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔
ملاقات کے بعد میں واپس آنے لگا تو ماموں حاجی محمد یوسف نے کہا ”اسلم !برطانیہ جا کرایک کام کرو گے” میں نے کہا ،بتائیں۔ ماموں بولے ”بھولنا نہیں ،تم نے عبداللہ کا پتہ کرنا ہے۔” میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور یہ محسوس کیا کہ وہ یہ بات بہت کرب سے گزرنے کے بعد کہہ رہے ہیں ۔مامو ں یوسف کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ کبھی اپنی کمزوری کا اظہار نہیں کرتے تھے، عبداللہ کے معاملے میں بھی انہوں نے تقریباً چودہ سال سے چپ سادھی ہوئی تھی ۔ انہوں نے بیٹے کے بچھڑ جانے کے غم کا اظہار کبھی کسی سے نہیں کیا تھا لیکن باپ کا دل تو باپ کا دل ہے ۔ان کے دل میں یہ حسرت ضرور تھی کہ عبداللہ پاکستان واپس آئے ۔میں نے ماموں کا دل رکھنے کے لیے عبد للہ کو تلاش کرنے کی ہامی بھر لی ۔
میں دو ماہ کے لیے فیصل آباد سے انگلینڈ چلا گیا اور گلاسگو میں بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے میں وقت گزرتا رہا ۔تقریباً تین ہفتے بعد مامو ںحاجی محمد یوسف کا خط آیا جس میں لکھا ہوا تھا” اسلم! تمہیں میرا کام یاد ہے ۔”میں نے خط پڑھ کر اپنے چھوٹے بھائی اور ماموں حاجی محمد یوسف کے داماد اکرم سے کہا ،مجھے تو کچھ یاد نہیں کہ ماموں نے مجھے کون سا کام کہا تھا ۔میں اس بارے میں سوچتا رہا پھر مجھے ا چانک خیال آیا کہ ماموں اپنے بیٹے عبداللہ کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے بھائی اکرم سے کہا کہ ہمیں عبداللہ کو تلاش کرنا چاہیے تو اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور بولا چودہ سال پہلے گم ہونے والے عبداللہ کو اتنے بڑے ملک میں کیسے ڈھو نڈا جا سکتا ہے ۔ میں نے کہا عبداللہ کی گمشدگی کی مقامی تھانے میں ایف آئی ار درج کروانی چاہیے تو اس نے طنزمسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا ۔ اگلے روز ہم دونوں بھائی صبح دکان پر چلے گئے۔ بھائی اکرم کی ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان تھی ۔ واپسی پر میں نے اکرم سے کہا کہ راستے میں کوئی پولیس سٹیشن آئے تو گاڑی روکنا اکرم نے حیرت کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہنے لگا کبھی گم شدہ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں ۔ میں نے کہا مجھے کچھ معلوم نہیں میں نے ماموں سے وعدہ کیا ہے اور مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔
ہم پولیس اسٹیشن کے کاؤنٹر پر پہنچے تو وہاں ایک بھاری بھرکم آئرش نژاد اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میرا کزن 10سال پہلے گم ہو گیا تھا تو اس نے بے پرواہی سے جواب دیا کہ پھر میں کیا کروں، میں نے جواباً کہا کہ گمشدہ افراد کو کیسے ڈھونڈا جاتا ہے ؟اس نے اپنے کندھے اچکائے اور چل دیا ۔ برطانوی پولیس کا یہ رویہ میرے لیے حیران کن تھا ۔ہماری ایف آئی آر درج نہ ہوئی ۔گاڑی میں بیٹھ کر اکرم مجھ سے کہنے لگا تم نے توبے عزتی کروا دی ۔ آج سے 45 برس پہلے موبائل فون کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ان حالات میں 14 برس سے گم شدہ کسی شخص کو برطانیہ میں تلاش کرنا ناممکن نہیں تو جوئے شیر لانے کے مترادف ضرور تھا ۔شاعر نے ایسے ہی حالات میں کہاتھا :
حالات نا موافق تھے لیکن مامو ںسے کیا ہوا وعدہ میرے ذہن پر مسلسل دستک دے رہاتھا ۔گھر پہنچ کر کھانا کھاتے ہوئے میں نے اکرم سے کہا کہ میرے خیال میں کسی گمشدہ شخص کو تلاش کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ جہاں اسے آخری بار دیکھا گیا ہے ، اسے وہاں جا کر ڈھونڈنا چاہیے۔ اکرم نے جواب دیا کہ 1966میں عبداللہ کارڈف میں رہتا تھا۔ کارڈف شہر گلاسگو سے 390میل دور ہے ۔میں نے اکرم کی بات سنتے ہی کہا، پھر مجھے کارڈف جا ناچاہیے۔ اکرم نے پوچھا ،تم وہاں کس کے پاس جا ؤگے ،میں نے کہا میں پہلے برمنگھم جاؤں گا وہاں سے کارڈف جانے کی کوئی سبیل نکال لوں گا ۔
میں دوسرے روز بذریعہ کوچ گلاسگو سے275میل کا سفر کر کے برمنگھم کے قصبے بلیک ہیتھ پہنچا ، اپنے سسر چوہدری قاسم سے ملا اور انہیں اپنے مشن سے آگاہ کیا ۔ وہ یہ سن کر حیران ہوئے ، انہوں نے مجھے بتایا کہ کل صبح کارڈف سے نذیر اپنے والد چوہدری رحمت اللہ سے ملنے کے لیے آرہا ہے، تم اس کے ساتھ کارڈف چلے جانا لیکن اس کے گھر میں مت رکنا کیونکہ اس نے انگریز خاتون سے شادی کی ہوئی ہے، کارڈف میں افغان آباد والے اقبال کے پاس چلے جانا ، نذیر ٹرالر ڈرائیور تھا ، دوسرے روز میں نذیرکے ساتھ ٹرالرپر بیٹھ کر بلیک ہیتھ سے کارڈف روانہ ہوگیا ۔برمنگھم شہر سے کارڈف کا فاصلہ115میل ہے ۔ (جاری ہے)