افریقہ والے دوست اور ان کے خاندانوں سے ملاقاتیں

پانچ ہفتے برطانیہ میں

(قسط نمبر23)

تحریر: محمد اسلم

10 میں نے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ ہم گلاسگو سے مانچسٹر اور مانچسٹر سے برمنگھم پہنچے ۔ 10اور 11 جون کی درمیانی رات ہم نے” بلیک ہیتھ” قصبے کے ہوٹل میں گزاری اور صبح بیدار ہو کر چائے اور بسکٹ کا ناشتہ ہوٹل کے کمرے میں کیا۔ ہوٹل کے کمرے میں الیکٹرانک کیتلی اور چائے بنانے کا سامان ،پتی اور دودھ وغیرہ موجود تھا، محمد شعیب بسکٹ اور چاکلیٹ کا تھیلا بھر کر ساتھ لایاتھا ۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم ٹوبہ والے محمد انور کے گھر پہنچے جہاں ایک گھنٹہ گپ شپ ہوتی رہی۔ پھر ہمارے میزبان محمد انور نے کہا کہ چلیں! میں اپ کو افریقہ والے دوستوں کے گھروں میں لے کرچلتا ہوں۔ سب سے پہلے ہم اپنے ماموں حاجی محمد یوسف کی بیٹی کے گھر گئے۔ ہماری کزن کے میاں عبدالحمید ایک زمانے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں یونا ئیٹڈ بینک لمیٹڈ میں آفیسر تھے۔ میاں عبدالحمید ٹوبہ چٹیانہ روڈ پر واقع گاؤں345 گ ب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس گا ؤں کی آبادی کی اکثریت کا تعلق جٹ برادری کی گوت ”گل”سے ہے۔ یہ لوگ بار آباد ہونے پر1920کے لگ بھگ ضلع لدھیانہ سے اٹھ کر یہاں آئے تھے اور 345 گ ب اور ارد گرد کے متعدد دیہات کو آباد کیاتھا۔ ان دیہات کے حوالے سے ایک رونگٹے کھڑے کرنیوالا واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ346چک میں ایک دلیر خاتون کرم بی بی عرف کرمو رہتی تھی ۔ یہ ہماری دور کی رشتے دار بھی تھی ۔اسکی شادی قیام پاکستان سے بہت پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 346 میں ہوئی تھی ۔اسے اگست 1947یں جب پتہ چلا کہ سکھ بلوائی مشرقی پاکستان میں مسلمانوں کی ٹرینوں پر حملہ کر کے انہیں قتل کر رہے ہیں تو اس نے انتقام لینے کے لیے سکھوں کی ٹرین کو نشانہ بنانے کا سوچا ۔کرم بی بی نے اپنے گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور سکھوں سے بھری ریل گاڑی کو اپنے گاؤں کے سامنے ریلوے ٹریک پر روک لیا ۔یہ ٹرین خانیوال سے لاہور جا رہی تھی، لاہور سے ان سکھوں نے انڈیاجاناتھا ۔ مسلمانوں نے اس ٹرین میں سوار تقریباً تمام سکھوں کو قتل کر دیا ۔ ان سکھوں کی کھوپڑیاں اس حادثے کے ایک سال بعد بھی آتے جاتے لوگوں کو دکھائی دیتی تھیں اسی وجہ سے اس گاؤں کا نام 46کرمو والی پڑ گیا ۔یہ گاؤں عبد الحمید کے گاؤں کے ساتھ واقع ہے ۔

 بھائی عبدالحمید نے عمر بھر یو بی ایل میں ملازمت کی۔ ان کی اہلیہ( ہماری کزن) کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا ۔تقریباً 15 سال پہلے بھائی عبدالحمیدبھی برطانیہ چلے گئے۔ ان کا بڑا بیٹا فیصل بہت ذہین اور محنتی ہے اور مقامی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کام کرتا ہے۔ہم بھائی عبدالحمید کے گھر میں ایک گھنٹہ بیٹھے۔ اس دوران سیاست کی بات چل پڑی ، وہ عمران خان کے حق میں خوب بولے ۔بھائی عبد الحمید کے گھر سے ہم محمد رفیق مرحوم کے گھر کیلئے روانہ ہوئے جن کا چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے۔ محمد رفیق اور ان کے بھائیوں سے ہمارے بچپن کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ان کے دو بھائی محمد صدیق اور محمد طاہر بھی وہاں آگئے۔ ہم نے محمد رفیق کے بیٹوں اور دونوں بھائیوں سے اظہار تعزیت کیا۔محمد رفیق کا اور ہمارا گھرانہ1950 کے عشرے میں کینیا کے شہر نیروبی کے محلہ” جوجا روڈ” میں ایک ہی مکان میں رہتاتھا ۔ محمد رفیق عمر میں مجھ سے چارسال بڑے تھے۔ وہ دراز قامت کے دبنگ آدمی تھے۔لڑکپن ہی میں کوئی مخالف ان کے سامنے نہیں ٹھہرتا تھا ۔محمدرفیق کے والدین کا تعلق لدھیانہ سے تھا ۔ رفیق کے تایا سرکاری ملازم تھے اور ان کو سانگھڑ میں زمین الاٹ ہوئی تھی ۔ محمد رفیق کے والد چوہدری ولی محمد نے بھی سانگھڑ میں الاٹ کروالی ۔ مجھے آج بھی رفیق کے گھرانے کا سانگھڑ منتقل ہونے کا فیصلہ بہت عجیب لگتا ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ انسان کو زندگی وہیں گزارنی چاہیے جہاں اس کے خاندان کے لوگ، عزیز و اقارب اور قریبی دوست احباب رہتے ہوں۔اپنے خاندان سے اور رشتہ داروں سے کٹ کر زندگی گزارنے میں کوئی لطف نہیں۔ پتہ نہیں، کچھ لوگ کیسے اپنے عزیزوں اور دوستوں کو چھوڑ کر دوسری زمینوں اور علاقوں میں جا کر آباد ہو جاتے ہیں ،خیر ۔۔۔۔میں، محمد رفیق اور محمد صدیق نیروبی میں ایک ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔ محمد رفیق مرحوم کا چھوٹا بھائی محمد صدیق میرا ہم عمر تھا ،وہ جب بیٹنگ کرتا تھا توخوب چھکے مارا کرتا تھا، اسی لیے ہم اسے” صدیق چھکا” کہتے تھے۔ محمد صدیق کا قد چھوٹا اور جسم درمیانہ ہے۔ اس کا کھیلنے کا انداز پاکستان کے مشہور کرکٹر حنیف محمد جیسا تھا۔اس میٹنگ میں صدیق کے چھکوں کے بات ہوتی رہی ۔محمد صدیق کے دو نوجوان بیٹے ہیں مگر دونوں چلنے پھرنے سے معذور ہیں اور بستر پر بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ نوجوان مشکل سے اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کی بات بھی بہت مشکل سمجھ آتی ہے محمد رفیق مرحوم کے گھر میں ہم تقریباً ایک گھنٹہ رکے، پھر محمد طاہر کھانے کے لیے ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ہم محمد رفیق کے بھائی محمدطاہر کے گھر پہنچے تو وہاں ان کے بڑے بھائی محمد لطیف بھی آئے ہوئے تھے۔ محمد لطیف میرے بڑے بھائی محمد ادریس کے ہم عمر اور ہم جماعت ہیں۔ وہ انتہائی خوش اخلاق ہیں ۔ دھیمے مزاج کے محمد لطیف کے ہونٹوں ہر ہمیشہ دھیمی مسکراہٹ سجی رہتی ہے اور وہ نرم لہجے میں گفتگو کرتے ہیں ۔وہ ساری زندگی لوگوں کے کام آتے رہے ۔

 محمد لطیف نے ہمیں بتایا کہ دو سال سے ان کی صحت خراب رہتی ہے اور چلنے پھرنے میں دقت ہو رہی ہے۔ وہ مجھ سے پاکستان کی باتیں پوچھتے رہے اور پی ڈی ایم کی حکومت کو کوستے رہے۔ وہ کہنے لگے کہ پاکستان کو عمران خان جیسا مخلص لیڈرمل ہی گیا تھا مگر ہم نے اس کی قدر نہیں کی۔دیگر افراد ان سے اتفاق کرتے رہے غیر ممالک میں ہماری خواتین بھی بہت اچھی پاکستانی ڈشیں بناتی ہیں۔محمد طاہر کے اہل خانہ نے کھانے میں چکن سٹیم روسٹ، سلاد ،چپاتی ،مٹن کا سالن اور زردہ تیار کیا تھا۔ ہم نے مزے لے کر کھانا کھایا۔ اس دوران پاکستان اور مشرقی افریقہ کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اپنے میزبانوں سے کہا کہ آپ پاکستان کا چکر لگائیں تو وہ بولے کہ ہم کیوں واپسی کا ارادہ کریں، پاکستان سے ہمیں کوئی ٹھنڈی ہوائیں تو نہیں آرہیں ۔

شام پانچ بجے کے قریب ہم نے محمد طاہر اور محمد لطیف سے اجازت لی اور فیصل اباد کے محلہ افغان آباد کے انور مرحوم کے گھر کا رخ کیا جن کا ڈیڑھ سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ انور مرحوم فیصل آباد میں آڈیو کیسٹ تیار اور فروخت کرنے والے مشہور ادارے ”رحمت گرامو فون” میں بطور ٹیکنیشن30 سال کام کرتے رہے ۔ ہم نے ان کی اہلیہ اور بچوں سے اظہار تعزیت کیا۔ شام کے تقریباً چھ بجے ہم وہاں سے رخصت ہوئے اور اب ہماری منزل میری خوشدامن کی بھتیجی کا گھر تھا جہاں ان کے شوہر عبدالواحد سے بھی ملاقات ہوئی ۔عبدالواحد بھائی پر چند ماہ پہلے فالج کا حملہ ہوا ہے، وہ بمشکل چل کر واش روم جاتے ہیں اور ان کا زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا ہے۔۔ ان سے افغان آباد کی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اپنی اہلیہ کی کزن سے پوچھاکہ آپ نے اپنے والد (ہاشم انکل) کی قائد اعظم محمد علی جنا ح کے ساتھ تصویر ڈھونڈنے کا وعدہ کیا تھا،آپ نے وہ تصویر ڈھونڈی یا نہیں تو انہوں نے بتایا کہ تلاش کے باوجود وہ تصویر نہیں ملی میں دوبارہ کوشش کروں گی۔ انکل ہاشم 1946میں لدھیانہ میں پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 298 گ ب میں آباد ہوئے اور ڈیوٹی کے لیے ملتان رپورٹ کی جہاں سے انہیں کراچی بھجوا دیا گیا۔ 1948 میں قائد اعظم نے کراچی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا تو ماموں ہاشم سی آئی ڈی میں ڈیوٹی کر رہے تھے اور ان کی سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میںڈیوٹی لگی ہوئی تھی، اس موقع پر ان کی قائد اعظم کے ساتھ تصویر بنی اور یہ یادگار تصویر 15سال پہلے ان کے گھر میں موجود تھی ۔ تصویر نہ ملنے کا افسوس ہوا ۔ رات کے نو بج چکے تھے ہم نے اپنے میزبان سے رخصت لی اور دوبارہ محمد انور کے گھر جا پہنچے جہاں رات کا کھانا تیار تھا۔

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *