ریاض احمد کا خلوص اور تبلیغی جماعت
پانچ ہفتے برطانیہ میں
(قسط نمبر20)
تحریر: محمد اسلم
یہ 1974 کے آخری دن تھے جب ہم نے گلاسکو میں CATHCART ROAD پر ریڈی میڈ گارمنٹس کی ایک اور دکان خریدی تو سڑک پار فروٹ کی ایک دکان تھی جس کے مالک کا نام ریاض احمد تھا۔ میری ریاض احمد سے علیک سلیک ہو گئی۔ جمعہ کا دن آیا تو پتہ چلا کہ مسجد دکان سے تقریباً تین میل دور ہے ۔ میں نے ریاض احمد کو تجویز دی کہ ہم اکٹھے نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے کار پرچلتے ہیں۔ دوران گفتگو ریاض احمد نے بتایا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 296 گ ب کے رہنے والے ہیں اور وہ بہت سال پہلے برطانیہ آئے تھے ۔ پھرہم ہر جمعہ کے دن نماز کیلئے ایک ساتھ جانے لگے۔ ہمارا یہ سا تھ تقریباً ایک سال رہا ۔میرا برطانیہ میں دل نہیں لگ رہاتھا ، میں دکان فروخت کر کے جنوری 1976 میں مستقل طور پر پاکستان آگیا۔ اسکے بعد جب کبھی گلا سگوجانا ہوتاتو ریاض احمد سے بھی ملاقات ہوجاتی ۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے فروٹ کی دکان بیچ کر آئس کریم کا کاروبار کر لیا ہے۔ بعد میں وہ مکمل طور پر تبلیغی جماعت سے منسلک ہو گئے اور ان کا شوق، جذ بہ اور ولولہ دیکھ کر تبلیغی جماعت نے انہیں پہلے گلاسگو اور پھر سکاٹ لینڈ کا امیر بنا دیا۔
درمیانے قد اور پتلے جسم کے ریاض احمد بہت شریف اور خوش اخلاق آدمی ہیں ، انہوں نے جب سے تبلیغی جماعت کی امارت سنبھالی ہے وہ کم گو ہو گئے ہیں، انہوں نے اپنے 24 گھنٹے جماعت کے لیے وقف کر رکھے ہیں ۔ ان کا زیادہ وقت تسبیحات اور ذکر اذکار میں گزرتا ہے۔ جب بھی ملاقات ہو مجھے دیکھ کر مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اورمیں انہیں چھیڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ گزشتہ 20 سال سے تبلیغی جماعت کے امیر ہیں، انہیں سب امیر صاحب کہہ کر پکارتے ہیں ۔ وہ ہفتے میں دو روز اپنے گھر میں اور پانچ دن مسجد اور مسجد کے کوارٹر میں گزارتے ہیں ۔ریاض احمد سے انٹرویو کیلئے ٹائم لینا آسان نہیں تھا۔ انہیں کئی بار کہا لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے پھر ایک روز مان گئے اور مسجد سے ملحقہ کمرے میں ہم نے ان سے گفتگو کی۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے نظریں نیچی رکھیں اور وہ قدرے توقف کے بعد ہمارے سوالوں کے جواب دیتے رہے ۔
ریاض احمد نے بتایا کہ انکا تعلق ارائیں برادری سے ہے۔ ان کے دادا کانام عمر تھا ، وہ 1885 کے لگ بھگ بار آباد ہونے پر جالندھر کی تحصیل پھلور کے کسی گاؤں سے آکر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 296 گ ب پٹواریاں والا میں آ باد ہو ئے،ان کے گھرانے کو نمبرداری کے علاوہ دو مربع زمین ملی، ریاض احمد کے والد کا نام برکت علی تھا ۔ریاض احمد 15 مئی 1939 کو 296 گ ب میں پیدا ہوئے اور پرائمری تک تعلیم بھی اسی گاؤں میں حاصل کی جبکہ میٹرک کا امتحان ڈی سی سکول ٹوبہ ٹیک سنگھ سے 1956 میں سیکنڈ ویژن میں پاس کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈی سی سکول کے ہیڈ ماسٹر ان کے والد کے ہم نام تھے اور ان کا نام بھی برکت علی تھا۔ ریاض احمد کے والد برکت علی تحصیلدار تھے اور مختلف تحصیلوں میں کام کرتے رہے۔ ان کے چھ بھائی عبدالحکیم ،عبداللطیف ،بشیر احمد ،محمد حنیف ،مسعود احمد ،سعید احمد اور تین بہنیں تھیں ۔ان کے سب بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے اور صرف مسعود احمد حیات ہیں ۔
ریاض احمد نے بتایا کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوںنے کالج میں داخلہ نہیں لیا بلکہ میٹرک کرنے کے بعد 1956 میں جہا نیاں میں اپنے کزن کی ”الہلال جننگ فیکٹری ”میں بطور کیشیئر ملازمت کر لی ، ان کی پہلی تنخواہ100روپے سے کم تھی۔ وہ 1958 تک یہ کام کرتے رہے۔ ریاض احمد نے اپنے ننھیال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے نانا فرید بخش ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک 33 کالج کے بانی پرنسپل تھے۔ ان کے نانا بھی بار آباد ہونے پر ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے تھے۔ پہلے انہوں نے مڈل تک سکول بنایا ،پھر 1950 کے عشرے میں کالج بنایا۔ اس زمانے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ اور پیر محل میں کوئی کالج نہیں تھا۔ ریاض احمد کے تین ماموں اور دو خالائیں تھیں۔ ان کے ایک ماموںنور محمد ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی برطانیہ کے شہر برمنگھم چلے گئے تھے۔ وہ قانونی طریقے سے برطانیہ گئے تھے اور بحری جہاز کے ذریعے سفر کیا تھا۔برمنگھم شہر سے 1942 میں وہ نیو کاسل منتقل ہوگئے۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ ان کی ایک بیٹی کی شادی ریاض احمد کے بڑے بھائی محمد حنیف سے ہوئی جس کے بعد محمد حنیف 1949 میں برطانیہ آگئے۔
ریاض احمد نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ بڑے بھائی کے 10 سال بعد 1959 میں برطانیہ آنے کا پروگرام بنانے لگے۔ انہوں نے اپنے والد برکت علی سے اجازت لے کر کراچی سے پاسپورٹ بنوایا، اس وقت برطانیہ جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، وہ یکم جولائی 1959 کو ہوائی جہاز کے ذریعے برطانیہ پہنچے اس وقت ایک برطانوی پونڈ پاکستانی کرنسی کے مطابق چھ روپے کا تھا ۔ ریاض احمد کے ماموں اور بڑے بھائی حنیف” نیو کاسل” میں ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔ ریاض احمد کے ذہن میں پاکستان واپسی کا ارادہ نہیں تھا اور وہ مستقل قیام کیلئے برطانیہ گئے تھے ۔ انکے بڑے بھائی حنیف کسی فیکٹری میں کام کرتے تھے ، ریاض احمد نے نیو کاسل میںدو برس بطور پیڈلر یعنی ڈور ٹو ڈور بھی کام کیا ۔ نیو کاسل میں اس وقت تقریباً100 پاکستانی رہتے تھے، 1961میں ریاض احمد اور ان کے بڑے بھائی حنیف نزدیکی شہرہرڈرز فیلڈ چلے گئے وہ وہاں بطور بس کنڈکٹر بھرتی ہوئے اور دو سال یہ کام کیا ،پھر بس ڈرائیور بن گئے اور 1965 تک یہ کام کرتے رہے ۔اس کے بعد انہوں نے ”ہرڈرز فیلڈ ”میں ہی گروسری کی دکان بنا لی۔ بڑے بھائی حنیف بھی ان کے ساتھ ہی تھے،وہ 1972 تک یہ کام کرتے رہے ۔ریاض احمد نے مزید بتایا کہ انہوں نے ”ہرڈزفیلڈ” میں ذاتی مکان بنا لیا تھا، یہ مکان چار بیڈ روم کا تھا، ان کے بھائی حنیف نے علیحدہ مکان بنایا تھا ۔ اس دوران ان کے والد برکت علی کا 1968 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انتقال ہو گیا، انہیں اطلاع ملی تو وہ پاکستان گئے لیکن والد کا جنازہ پڑھنا نصیب نہ ہوا،دو سال بعد 1970 میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور یہ والدہ کے جنازے میں بھی شرکت نہ کر سکے،ریاض احمد کے ہم زلف محمد انور گلاسگو میں رہتے تھے، انکے مشورے سے ریاض احمد 1972میں گلاسگو آگئے۔
ریاض احمد نے برطانیہ سے پاکستان کا پہلا سفر 1968 میں بائی روڈ کیا تھا۔ اس سفر میں ان کے دوست بھی ان کے ساتھ تھے۔ وطن میں قیام کے دوران ان کی شادی ان کے ماموں محمود کی بیٹی سے ہو گئی، وہ پاکستان میں چھ ماہ رہے۔ شادی کے بعد وہ اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کربذریعہ سڑک ہی برطانیہ واپس گئے ۔1972 میں گلاسگو آنے کے بعد انہوں نے دکان داری کی اور CATHCART ROADمیں فروٹ کی دکان بنا لی. ان کی یہ دکان میری) محمد اسلم کی (دکان کے بالکل سامنے تھی. انہوں نے تقریبا پانچ سال CATHCART ROAD پر دکانداری کی, پھر 1979 میں گلاسگو کے علاقہ البرٹ ڈرائیو روڈ میں آئس کریم کا ہول سیل کا کام کر لیا۔1994میں انہوں نے کام چھوڑ دیا اور ریٹائرڈ زندگی گزارنے لگے۔
ریاض احمد نے بتایا کہ اب تک وہ پاکستان کے بیسیوں سفر کر چکے ہیں وہ آخری مرتبہ دسمبر 2022 میں پاکستان گئے تھے۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا عتیق الرحمن ہے۔ عتیق الرحمان 1971 میں پیدا ہوا، اس نے حفظ قران کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا ۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈینٹسٹ ہے اور شہر میں اسکا بڑا کلینک ہے جس میں کئی ڈاکٹر کام کرتے ہیں ۔ ریاض احمد کہتے ہیں کہ سکاٹ لینڈ کے لوگوں کے حسن سلوک نے انہیں ہمیشہ متاثر کیا۔ انہوں نے پہلی کار 1960 میں نیو کاسل میں خریدی تھی۔ ان کی اہلیہ کا انتقال 2022میں ہوا اور انہیں گلاسگوہی میں سپرد خاک کیا گیا۔ اب ریاض احمد بیٹے کیساتھ گلاسگو کے محلے CUMBUSLANG میں رہتے ہیں وہ ہفتے میں صرف دو دن گھر پر گزارتے ہیں اور باقی پانچ دن مسجد کے کوارٹر میں گزارتے ہیں۔ تبلیغی جماعت سے اپنے تعلق کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ریاض احمد نے کہا کہ انہوں نے 1965 میں ہرڈزفیلڈ میں پہلی بار جماعت کے ساتھ تین دن لگائے تھے، یہ سہ روزہ” ڈیوز بری” جا کرسات دن میں تبدیل ہو گیا۔ 1979 میں انہوں نے 40 روز کا چلہ گلاسگو میں لگایا،اس زمانے میں گلاسگو میں تبلیغی جماعت کے امیر عبدالرزاق ہوا کرتے تھے ۔تبلیغ کے سلسلے میں وہ 35 مرتبہ جماعت کے ساتھ بیرون ملک جا چکے ہیں۔ وہ کینیڈا، آسٹریلیا ،بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کا سفر کر چکے ہیں ،چار مرتبہ انڈیا اور دو مرتبہ چین جانے کا موقع ملا ،اس کے علاوہ وہ امریکہ، ساؤتھ افریقہ ،فجی، برازیل، بیلجیم، سویڈن ناروے،ہالینڈ،سعودی عرب، پاکستان اور برٹش گیانابھی جا چکے ہیں ۔
ریاض احمد سے ملاقات کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہاتھا کہ تبلیغی جماعت نے برطانیہ میں مسلمانوں کی زندگی پر بہت مثبت اثرات مرتب کیے ہیں اور بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں ، سینکڑوں لوگ تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں تبلیغی جماعت کے علاوہ بھی دین کا کام کرنے والی سب جماعتیں اپنے اپنے طور پر بھلائی کا کام ہی کر رہی ہیں اور اندھیرے میں چراغ جلا رہی ہیں ۔تبلیغی جماعت ان سب جماعتوں میں بہت نمایاں ہے۔ یہ لوگ مسلک کی بات کرتے ہیں نہ سیاست میں دخل دیتے ہیں ۔
(جاری ہے )