حاجی شیر محمد عرف حاجی شیرا کی یادیں
پانچ ہفتے برطانیہ میں
(قسط نمبر17)
تحریر: محمد اسلم
حاجی شیر محمدگلاسگو کے نزدیکی قصبے ”بشپ برگ”(BISHOP BRIGG) میں بطور ”پیڈلر ”کام کرتے رہے۔ اس دوران میں انہوں نے اپنے تین بھائیوں کو بھی برطانیہ بلالیا ۔اس دور میں برطانیہ جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں تھی، صرف وہاں سے کوئی میزبان یہ خط لکھتا کہ برطانیہ آنے والے شخص کا خرچہ ہم اٹھائیں گے، برطانیہ پہنچنے والا شخص بندرگاہ پر اتر کر یہ خط دکھاتا اور برطانیہ میں انٹری ہو جاتی۔ حاجی شیر محمد کے بھائی رحمت علی 1946 میں اور حشمت علی 1949 میں برطانیہ گئے ۔ تیسرے بھائی محمد علی پاکستان میں زیر تعلیم تھے، انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیاتو 1951 میں وہ بھی برطانیہ چلے گئے ۔تینوں بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ محمد علی پڑھے لکھے ہیں اس لیے انہیں پیڈلر کا کام نہیں کروانا، مشاورت کے بعد طے ہوا کہ ویئر ہاؤس بنایا جائے جہاںپر ٹیکسٹائل کاسامان فروخت کیاجائے ۔ان بھائیوں نے 1952 میں گلاسگو کی آکسفورڈ سٹریٹ میں چھوٹی سی دکان کھولی اور محمد علی کو ویئر ہاس پر اکا ؤنٹنٹ کے طور پر کھڑا کر دیا۔(کالم نگار محمد اسلم نے یہ چھوٹی سی دکان 1968 میں دیکھی تھی)۔حاجی شیرمحمد کی پہلی اہلیہ فقیراںبی بی برطانیہ نہیں گئیں۔ ان کی دوسری اہلیہ کا تعلق فیصل آباد سمندری روڈ کے گاؤں ”ہری سنگھ ” سے تھا ۔دوسری ا ہلیہ کے خاندان سے ان کی پہلے کوئی رشتہ داری نہ تھی ۔ حاجی شیر محمد کی دوسری اہلیہ نے ایک برس قبل یکم اکتوبر 2022کو 85سال کی عمر میں وفات پائی ۔ حاجی شیر محمد کی پہلی اہلیہ سے ایک بیٹا رفیق شیر اور ایک بیٹی زبیدہ بی بی پیدا ہوئی جبکہ دوسری اہلیہ سے تین بیٹے نعیم شیر، اسلم شیر،وحید شیر اور ایک بیٹی نسیم بی بی پیدا ہوئی، رفیق شیر کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ دیگر پانچ بہن بھائی حیات ہیں۔
حا جی شیر محمد کے بیٹے محمد نعیم شیر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ شیر برادرز نے 1962کے لگ بھگ پیپلز کالونی ڈی بلاک میں کوٹھی نمبر 496 ڈی خریدی ۔پھر حاجی شیر محمد نے 1965 کی جنگ سے پہلے سول لائنز میں 26 جی پلاٹ پر مکان کی تعمیر شروع کی جو 1966 میں تیار ہوا۔حاجی شیر محمد نے اپنے سب سے بڑے بھائی فقیر محمد کا بھی پاسپورٹ بنایا اور انہیں برطانیہ بلانا چاہا لیکن جب فقیر محمد کو یہ معلوم ہوا کہ برطانیہ میں تو گوریاں سکرٹ پہنتی ہیں تو انہوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا ۔ادھر گلاسگو میں شیر برادرز کا ویئر ہاؤس خوب چلا ،اسی دوران 1962 میں ایوب خان ایڈنبرا (برطانیہ )آئے تو شیر برادرز کی بھی ان سے ملاقات ہوئی اور ایوب خان نے انہیں پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے پر رضامند کر لیا۔ شیر برادرز نے 10عددبسوں کے انجن اور بنیادی ڈھانچے بیڈ فوڈ کمپنی سے خریدے، یہ بسیں کراچی پہنچیں اور وہاں گندھاراانڈسٹریز والوں سے بسیں تیار کروائیں ۔
شیر برادرز کو ٹرانسپورٹ کے شعبے میں مثالی عروج حاصل ہوا اور وہ1969میں120 بسوں کے مالک بن گئے۔ اس زمانے میں کوہ نور ملز کے مالکان کا بینک بیلنس بھی اتنا نہیں ہوتا تھا جتنا شیر برادرز کے اکا ؤنٹس میںپیسہ پڑا ہوتا تھا ۔ یہ جنرل یحیی خان کا زمانہ تھا ۔سول لائنز میں شیر برادر زکے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون نے سرگودھا کے مارشل ایڈمنسٹریٹر” ایف بی علی” کو شکایت کی کہ ہمارے پلاٹ پر شیر برادرزنے قبضہ کر لیا ہے (حالانکہ یہ الزام بالکل غلط تھا )۔ نیز شیر برادرز کے ٹیکس کے معاملات بھی درست نہیں لہذایہ انکوائری بھی کی جائے کہ یہ لوگ اتنے امیر کیسے ہو گئے ہیںاور ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے؟ اس خاتون کی مارشل ایڈمنسٹریٹر سے رشتہ داری بھی تھی، مارشل لا ایڈمنسٹریٹرنے ہمارے (شیر برادر ز کے) خلاف سخت ایکشن لیا ۔ لائل پور کی انتظامیہ سے تو شیر برادرز کے تعلقات بہت اچھے تھے مگر مار شل لا کا زمانہ تھا اور مارشل لا کے زمانے میں فوج کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔
نعیم شیر بتاتے ہیں کہ جب شیر برادرز کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع ہوئیں تو حاجی شیر محمد کے بھائی رحمت علی کا ایک بریگیڈیئر سے تنازعہ ہو گیا ۔رحمت علی بڑے دھڑلے والے آدمی تھے۔ ایک روز وہ بس اڈے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے بھائی فقیر محمد کا بیٹا بشیر بھی ساتھ تھا ۔بریگیڈیئر صاحب اپنے فوجی ساتھیوں سمیت وہاں آئے۔ اڈے پر شیر برادرز کے ملازمین بھی موجود تھے ۔بریگیڈیئر نے الٹی سیدھی گفتگو کی تو چوہدری رحمت نے اسے جواب دیا کہ تم کیا باتیں کرتے ہو؟ ہم نے پردیس میں” ڈور ٹو ڈور” بزنس کیا اور پیسے کما کر یہ ٹرانسپورٹ بنائی ہے، میرے بازو دیکھو،یہ سوٹ کیس اٹھا اٹھا کر کمزور ہوئے ہیں۔ ہماری حق حلال کی کمائی ہے، تم آکر رعب ڈالتے ہو ۔
بریگیڈیر نے چوہدری رحمت علی کی یہ گفتگو سنی تو مشتعل ہو کر پستول نکال لیا۔ اڈے پر موجود لوگوں نے یہ صور ت حال دیکھی تو انہوں نے بھی اسلحہ نکال لیا۔ اس تنازعے کے نتیجے میں رحمت علی اور بشیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ بشیر کو ایک سال قید اور 10 کوڑے جبکہ رحمت علی کو ایک سال قید اور 60 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔ بریگیڈیئر کو پہلے سے معلوم تھا کہ شیر برادرز کے اکاؤنٹ میں 50 لاکھ روپے موجود ہیں ،اس واقعے کے بعد شیر برادرز کی ٹرانسپورٹ کمپنی کو وہ عروج حاصل نہ رہا جو اس سے پہلے تھا ۔ رحمت علی اور محمد علی کا زیادہ وقت عدالتوں کے چکر لگنے میں ہی گزر جاتا تھا۔جب میں (کالم نگار)1976 میں پاکستان آیا، اس وقت تک بھی شیر برادرز کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار پر اچھا خاصا عروج تھا لیکن اس کے بعد بسوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی اور 1980 کے عشرے میں یہ ٹرانسپورٹ کمپنی ختم ہو گئی۔
نعیم شیر نے مزید بتایا کہ ان کے والد حاجی شیر محمدپاکستان آتے جاتے رہتے تھے ۔وہ ایک مرتبہ وطن آئے تو سمندری میں اپنے کھیتوں میں چلتے چلتے چکر کھا کر گر گئے جس کے بعد وہ گلاسگو واپس چلے گئے اور اپنا معائنہ کرایا تو پتہ چلا کہ ان کے دماغ میں رسولی ہے،نعیم شیر نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ یہ کینسر کی رسولی تھی یا عام رسولی تھی۔حاجی شیر محمد کا گلاسگو کے ”سدرن جنرل ہسپتال”(SOUTHERN GENERAL HOSPITAL ) میں کامیاب آپریشن ہوا لیکن 1981 کے لگ بھگ ہی ان کا انتقال ہو گیا ۔حاجی شیر محمد نے وصیت کی تھی کہ انہیں گلاسگو کے بجائے سمندری میں والدین کی قبروں کے پاس ہی سپرد خاک کیا جائے۔ ان کی وصیت پر عمل کیا گیا۔ میت کے ساتھ ان کی اہلیہ ، بڑا بیٹا رفیق شیر، دوسرا بیٹا اسلم شیر پاکستان آئے ۔ اس سے قبل گلا سگو میں ان کی نماز جنازہ ہوئی، یہ بہت بڑا جنازہ تھا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ وطن واپسی پر کمپنی باغ میں ان کی کوٹھی کے سامنے نماز جنازہ ہوا جس میں شرکا کی تعداد سینکڑوں میں تھی ،مجھے(کالم نگار کو) اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پر حاجی شیر محمد کے بیٹے رفیق شیر نے مجھ سے یہ گلہ کیا کہ گلاسگو میں حاجی شیر محمد کا جنازہ ہوا تھا توپورے شہر کے مسلمان امڈ آ ئے لیکن وطن میں بہت کم لوگوں نے جنازے میں شرکت کی ۔
شیر برادرز کی ٹرانسپورٹ کمپنی پر زوال آیا تو اس خاندان کے تقریباً تمام نوجوان یکے بعد دیگرے گلاسگو چلے گئے ۔دیکھتے ہی دیکھتے گلاسگو میں اس خاندان کے کاروبار کو بہت عروج ملا اور انہوں نے چار بڑے کیش اینڈ کیری قائم کیے جن میں” شیر برادرز”،” ہاؤس اف شیر” اور ” بونی پیک”( BOONY PACK) وغیرہ شا مل ہیں ۔
شیر برادرز کی اولاد اپنے بڑوں کی فرمانبردار تھی اور ان لوگوں میں بہت اتحاد تھا ۔ 1981میںحاجی شیر محمد کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بیٹے رفیق شیر نے اس خاندان کی سربراہی سنبھالی اور رفیق شیر کی1997میں وفات کے بعد منور حیات نے کاروبار اور معاملات کو آگے بڑھایا، پھر ایک مرحلے پرمنور حیات نے وقت کی رفتار دیکھتے ہوئے شیر برادرز کے سب بھائیوں کی اولاد کو اکٹھا بٹھایا اور اثاثے تقسیم کر دیے۔
1970اور 1980کے عشرے تک شیر برادرز کی اولاد پاکستان میں اپنے گاؤں آتی جاتی رہی۔یہ لوگ” کوٹا ں”گاؤںمیں دو دو مہینے قیام کرتے ،اسی طرح فیصل آباد کی کوٹھی میں بھی آ کر رہتے تھے لیکن جب تیسری نسل جوان ہوئی تو آنے جانے کا یہ سلسلہ بہت ہی کم رہ گیا۔ گزشتہ 20 سالوں سے صورت حال یہ ہے کہ برائے نام ہی یہ لوگ وطن کا چکر لگاتے ہیں، انہوںنے اپنی زمین ٹھیکے پر دے دی ہے اور” کوٹاں”میں ان کی شاندار کوٹھیاں ویران پڑی ہوئی ہیں اور اپنے مکینوں کا انتظار کر رہی ہیں۔
(جاری ہے )