نیب ترامیم کیس پروسیجر ایکٹ کے تفصیلی فیصلے سے مشروط، ٹرائل کورٹس کو ریفرنسز پر حتمی فیصلے روک دیا گیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کوپریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کے تفصیلی فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے ٹرائل کورٹس کو نیب ریفرنسزکے حتمی فیصلے سے روک دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس اظہر رضوی پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اور فاروق نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کا اقلیتی فیصلہ بھی آچکا ہے، اپیل میں وفاقی حکومت نے ایک نکتہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کا اٹھایا ہے، کیا آپ اس نکتے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں؟ اگرآپ کی یہ دلیل مان لی گئی تونیب ترامیم کے خلاف درخواستیں زیرالتوا تصور ہوں گی اور زیرالتوا درخواست پر ازسرنو 5 رکنی لارجر بینچ فیصلہ کرے گا۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اپیلوں پر پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون لاگو ہونے کی حمایت کردی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجرکیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ پہلے تفصیلی فیصلے کا انتظارکرلیا جائے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ نیب ترامیم سے کوئی مستفید ہوا، نیب ترامیم سے کوئی بری نہیں ہوا، صرف مقدمات کا فورم بدلا ہے۔
اس دوران فاروق ایچ نائیک نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے، صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے، نیب ترامیم کےخلاف اپیل کوپریکٹس اینڈ پروسیجرکے تفصیلی فیصلے آنے کے بعد مقرر کریں گے، پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے نقطے پردلائل دیں گے تو عدالت کو سیکشن4 کا اطلاق دیکھنا پڑےگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے اس نکتےکا اطلاق ہوا تو 5 رکنی بینچ نئےسرےسے نیب ترامیم کیس سنےگا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم انٹراکورٹ اپیل کے حتمی فیصلے تک ٹرائل کورٹس کو نیب ریفرنسزکے حتمی فیصلے سے روک دیا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کوپریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کے تفصیلی فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نیب ترامیم کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کرتی ہے، نیب، اٹارنی جنرل، تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کوبھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔