خواہش ہے مگر پاکستان نہیں آسکتے

پانچ ہفتے برطانیہ میں     (قسط نمبر13)

تحریر: محمد اسلم

سمندر پار مقیم لاکھوں پاکستانیوں کی طرح محمد سلیم کمبوہ کی خوشیاں اور غم بھی پاکستان کے حالات سے مشروط ہیں۔ وطن سے اچھی خبر ملے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور وطن کے حالات خراب ہوں تو انہیں افسردگی آلیتی ہے۔ یہ تارکین وطن بہتر معاشی مستقبل کے لیے برطانیہ آئے اور وطن واپسی کے خواب آنکھوں میں سجائے برسوں پردیس میں کام کرتے رہے۔ پچھلے 50 برس سے پاکستان کے دگرگوں حالات نے وطن واپسی کے یہ خواب بکھیر دیے ہیں۔ اب یہ لوگ نہ تو پاکستان آسکتے ہیں اور نہ انہیں پردیس میں ہی سکون ہے۔ وہاں یہ ہر وقت پاکستان ہی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ”نہ اجائے رفتن نہ پائے ماندن”۔

محمد سلیم کمبو ہ فیصل اباد کے گاؤں جہانگیر کلاں کے رہائشی ہیں ۔ یہ گاؤں شہر سے آٹھ میل دور سمندری روڈ پر واقع ہے۔ محمد سلیم کمبوہ مئی 1950  میں پیدا ہوئے ، انہوں نے اسلامیہ کالج فیصل آباد سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ ان کے والدین کا تعلق ضلع ہوشیار پور ہے اور فیصل آباد میں ان کے گھرانے کی 6ایکڑزرعی اراضی ہے ۔۔ان کی شادی 1977 میں رشتے کے مامو ںکے گھر میں ہوئی جو برطانیہ میں مقیم تھے ۔ شادی کے بعد سلیم کمبو ہ بھی اپنے اچھے مستقبل کے لیے برطانیہ پہنچے اور”ہڈرز فیلڈ”شہر میں بطور کنڈکٹر اور ڈرائیور ملازمت اختیار کی ۔ 1989 میں ان کا ایک دوست گلاسگو چلاگیا اور دوست کے پیچھے پیچھے یہ بھی گلا سگو جا پہنچے۔ گلا سگومیں انہوں نے” پیزلے” (PAISLEY)قصبے میں دکان خریدی اور کپڑے کا کاروبار کیا ۔یہ اپنی دکان کے لیے جہاں سے تھوک کا سامان خریدتے تھے، 1990 میں وہاں ان کی میرے بھائی اکرم سے دعا سلام ہوئی اور پھر یہ تعلق اتنا بڑھا کہ ایک وقت آیا کہ سلیم کمبوہ بھائی اکرم کی دکان پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔ سلیم کمبو ہ سے میری 20 برس سے دعا سلام ہے۔اس مرتبہ میں گلاسگو پہنچا تو میرے بھائیوں نے مجھے بتایا کہ سلیم کمبوہ کی اہلیہ کا ایک ماہ قبل اپریل 2023میںکینسر کے مرض سے انتقال ہو گیا ہے۔ میں، بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی محمد اکرم اظہار تعزیت کے لیے گلاسگو کے محلہ ”CATH CART ”میں ان کے گھر گئے۔ ان کا گھر دوسری منزل پر ہے ۔ دراز قامت اور کھلے رنگ کے مالک سلیم کمبوہ دینی مزاج رکھتے ہیں ۔ اپنی اہلیہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو گئے اور بولے کہ وہ بہت نیک خاتون تھیں۔وہ ساڑھے چار برس سے کینسر کے مرض سے لڑتی رہیں اور کچھ عرصے سے انہیں یہ معلوم تھا کہ مرض جان لیوا ہے اور اب وہ دنیا میں زیادہ دیر نہیں رہیں گی ۔سلیم نے افسردہ لہجے میں بتایا کہ ان کی اہلیہ نے اکتوبر 2022 میں انہیں عمرے پر بھیجا اور کہا کہ خانہ خدا میں جا کر دعا کرو ۔طویل رفاقت میں اہلیہ نے ان کی بہت خدمت کی ، مرحومہ کی قبر گلا سگوہی میں بنی ہے۔ میں سوچنے لگا کہ انسان کتنا بے بس ہے۔ میڈیکل سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجود اسے ایک دن موت کے اگے ہتھیار پھینکنے ہی پڑتے ہیں۔

 بھائی اکرم نے اپنی دکان چند برس پہلے بند کر دی تھی اب وہ اور سلیم دونوں اپنے گھروں میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں ۔سلیم کمبوہ کے والدکا 1992 میں اور والدہ کا 2012 میں انتقال ہوا ۔ تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں ۔ ان کا ایک چھوٹا بھائی سعودی عرب میں ہے جبکہ ایک چھوٹا بھائی گاؤں میں رہتا ہے اور زمیندارہ کرتا ہے ۔ چھ بہنوں میں سے دو کا انتقال ہو چکا ہے ۔اس وقت ان کے بہن بھائیوں میں سے صرف ایک بہن گاؤں جہانگیر کلاں میں رہائش پذیر ہے اور بہنوئی کا انتقال ہو چکا ہے ۔سلیم کمبوہ نے مزید کہاکہ پاکستان کے سیاسی حالات کے باعث ایک غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے ۔ ہے ان حالات میں وطن واپسی کا فیصلہ کرنا آسان نہیں۔وہ بولتے رہے اور میں سنتا رہا۔سچ یہ ہے کہ ان کی باتیں سچی تھیں۔

 سلیم سے گفتگو جاری تھی کہ بھائی اکرم نے بتایا کہ ان کا چھوٹا بیٹا عاطی( عطا الرحمن ) ”نیلسٹن”(NIELSTON) کے قصبے میں رہتا ہے۔ وہ ڈینٹسٹ ہے اور ایک پرائیویٹ کلینک میں پریکٹس کرتا ہے۔ کیوں نہ ہم اس سے مل آئیں اور ساتھ ساتھ میں اپنے دانتوں کا معائنہ بھی کروا لوں گا۔ اکرم نے یہ بھی بتایا کہ نیلسٹن کا قصبہ گلاسگو شہر سے 15 میل دور ہے ۔ ہم ”نیلسٹن”(NIELSTON)کی طرف چل پڑے اور آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے۔ اکرم کے تین بیٹے ہیں ۔بڑا بیٹا عمران سکول ٹیچر ہے ۔دوسرا بیٹا عمر اکاؤنٹنٹ اور تیسرا عطا الرحمن ڈینٹسٹ ہے ۔

”نیلسٹن”(NIELSTON)چھوٹا سا قصبہ ہے۔ دونوں طرف کھیت ہی کھیت ہیں اورکھیتوں کے درمیان 300 گھرانے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں جن میں دس ، بارہ پاکستانی گھرانے بھی شامل ہیں۔ ہم کلینک پر پہنچے تو گوری ریسیپشنسٹ(RECEPTIONIST)  نے ہماری آمد کی اطلاع دی، عاطی ہمارے آنے کی خبر سنتے ہی آگیا۔ میں اس سے 10 برس کے بعد مل رہا تھا۔ سلام دعا کے بعد وہ ازراہ مزاح بولا ” انکل!آپ نے دانت شانت نکلوانا ہے تو آجائیں”۔ میں نے کہا تم اپنے والد کے دانت کا مسئلہ حل کرو، اتنے میں ہم قصبے کا چکر لگاتے ہیں۔ ہم”نیلسٹن”(NIELSTON) کی سیر کے لیے نکل گئے۔ یورپ کے دیگر چھوٹے چھوٹے قصبوں کی طرح یہ بھی ایک منظم اور صاف ستھرا قصبہ ہے جس میں ڈاک خانہ ،بینک، پٹرول پمپ اور بڑا سٹور ،سب سہولتیں موجود ہیں۔قصبے میں رش بالکل نہیں تھا ۔دکانیں بھی صرف مین روڈ پر ہیں ۔ہم نے 5 منٹ میں قصبے کا چکر لگایا اور پھر کھیتوںکے درمیان گزرنے والی سڑک پر چل نکلے۔ کھیتوں میںگھاس اگی ہوئی تھی اور بھیڑیں چر رہی تھی۔ تقریبا 20 منٹ کے بعد جب ہم کلینک پر واپس پہنچے تو عاطی بھائی اکرم کے دانتوں کا معائنہ کر چکا تھا۔ وہ بولا کہ یہاں سے پانچ میل دور کھیتوں میں میرا گھر ہے۔ پھر وہ سائیڈ والی سڑک سے بذریعہ کار ہمیں اپنے گھر لے گیا ۔یہ برلب سڑک ایک بڑا سا گھر ہے جس کے ارد گرد کھیت ہی کھیت ہیں۔ میں نے یہ ماحول دیکھ کر کہا کہ تمہیں ڈر نہیں لگتا۔ وہ بولا کہ فی الحال یہاں کوئی واردات نہیں ہوئی، امن و امان ہے اس لیے ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔

 ہم باتیں کر رہے تھے کہ عاطی کی اہلیہ بچوں کو پرائمری سکول سے لے آئی ۔بچوں کو ہمارے آنے کی اطلاع مل چکی تھی اور انہوں نے راستے میں سے ہمارے لیے گریٹنگ کارڈ ز(GREETING CARDS)خرید لیے تھے، بچے بہت پرجوش طریقے سے ہمیں ملے۔ عاطی کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔ اس کے بیٹوں کا نام یوسف، ایوب اور اسحاق ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں میں اپنے بچوں کے نام انبیا کے نام پر رکھنے کا رجحان بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ میری بھتیجیوں کے بیٹوں کے نام نوح، ہارون اور موسی ہیں۔ اسی طرح میرے بڑے بھائی ادریس کے پوتوں کے نام اسماعیل، ابراہیم اور جبرائیل ہیں اور ہمارے خاندان میں ایک بچے کا نام آدم بھی ہے ۔یہ رجحان بہت مبارک ہے اور کہا جاتا ہے کہ نام کی شخصیت پر اثرات بھی ہوتے ہیں۔

عاطی نے بتایا کہ وہ تین سال سے اس قصبے میں مقیم ہے۔ یہ بہت پرسکون علاقہ ہے۔ بھائی اکرم نے کہا کہ پرسکون تو ہے لیکن بہت دور ہے۔ ہم اسے گلاسگو واپس بلا رہے ہیں ۔مضافات میں کھلے مکانات ہیں اورکھلے مکانات میں گیرج کی سہولت بھی مل جاتی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آج کل کے نوجوان یہ بڑے اور کھلے گھر افورڈ کر سکتے ہیں ۔پاکستان سے برطانیہ جانے والی پہلی نسل کے لوگوں نے پیسے کما کر پاکستان بھیجنے ہوتے تھے، نئی نسل کو یہ مسئلہ نہیں ۔وہ برطانیہ کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور جو کچھ بھی کماتے ہیں ، وہیں خرچ کرتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ اس کے پاس وسائل ہوں تو وہ بہتر سے بہتر رہائش چاہتا ہے۔ میرے بھتیجے بھتیجیاں اور بھانجے بھانجیاں انہی حقائق کی بناپر گلا سگوشہر سے اٹھ کر مضافات میں کھلے اور بہتر مکانات میں آگئے ہیں۔

(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *