ہماری ڈائریکشن ٹھیک نہیں ہے

پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 12)

تحریر : محمد اسلم

شاہد میر گزشتہ 22 برس سے گلاسگو میں مقیم ہیں۔ برطانیہ جانے سے پہلے وہ فیصل آباد کے محلہ سمن اآباد کے رہائشی تھے، ان کی والدہ اور بھائی اب بھی سمن آباد میں رہتے ہیں۔ شاہد میر شعبہ صحافت سے وابستہ رہے اور انہوں نے روزنامہ ”جرات”،” ڈیلی کرنٹ رپورٹ ”روزنامہ ”اساس” ور دیگر اخبارات میں کام کیا۔ وہ 10 اپریل 2001 کو برطانیہ چلے گئے۔ انہوں نے شروع میں مختلف دکانوں پر ملازمت کی اور اب ان کی اپنی دو دکانیں ہیں۔ وہ صحافت کا شوق بھی پورا کر رہے ہیں اور پاکستان کے مقبول ٹی وی چینل” 92 نیوز ”کے گلاسگومیں نمائندہ ہیں۔ اللہ تعالی نے شاہد میر کو خطابت کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ وہ خوبصورت گفتگو کرنے کا فن رکھتے ہیں۔ گلاسگومیں شعر و شاعری یا نعت خوانی کی محفل ہو، سیاسی اجتماع ہو یا ثقافتی اکٹھ ،شاہد میر پیش پیش ہوتے ہیں۔ برمحل گفتگو کا فن انہیں ٹی وی سکرین پر لے کر آیا۔ وہ اپنے موبائل فون کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔ گلا سگو میں پاکستانیوں کے کوئی تقریب ایسی نہیں ہوتی جس میں شاہد میر شرکت نہ کریں اور وہ ہر تقریب کی سوشل میڈیا پر بھرپور کوریج بھی کرتے ہیں۔ لوگ انہیں تلاش کر کے اپنی تقریبات میں مدعو کرتے ہیں۔ وہ میٹھے الفاظ اور نرم لہجے میں اپنی گفتگو کرتے ہیں۔انہیں کرکٹ سے بھی بہت دلچسپی ہے اور خود بھی کرکٹ کھیلتے ہیں ۔ دکاندار کبھی اپنی دکان نہیں چھوڑتے اور واش روم جانے سے پہلے بھی سوچتے ہیں لیکن شاہد میر یاروں کے یار ہیں اور دکان بند کر کے بھی مختلف تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔

 شاہد میر کی الیکٹرونکس کی دو دکانیں ہیں۔ ایک دکان گلاسگو شہر سے 30 میل دور ہ”ارون ”( IRVINE) میں ہے ۔شاہد میر کی رہائش گاہ بھی’ارون ”( IRVINE) ہی میں ہے، ان کی دوسری دکان گلا سگو شہر میں ہے۔دراز قامت اور گورے رنگ کے شاہد میر پروجاہت شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے ایک سکا ٹش خاتون سے شادی کی ہے ۔ان کی اہلیہ انتہائی فرمانبردار خاتو ن ہیں ۔ شاہد میر کی تین بیٹیاں ہیں۔ اس بار میں جب گلاسگوپہنچا تو شاہد میر کو فون کر کے اپنی آمد سے مطلع کیا ۔ وہ خوشی سے بولے کہ اسلم بھائی! فوری ملاقات ہونی چاہیے مگر میں ابتدائی ہفتے میں اپنے بہن بھائیوں سے ملاقاتوں میں مصروف رہا۔ دس دن بعد 31 مئی کو میں اور بھائی ادریس گلاسگو کے محلہ ” پولک شیلڈ ”(POLLOK SHIELD)میں شاہد میر کی دکان پر پہنچے تو دکان بند تھی ۔شاہد میر پانچ منٹ بعد پہنچے تو بتایا کہ وہ کسی تقریب میں شرکت کیلئے گئے ہوئے تھے ۔وہ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہم وہاں ایک گھنٹہ بیٹھے ۔ میں نے شاہدسے کہا”آپ کے پاؤں میں چکر ہے، دکاندار کل وقتی مصروفیت (FULL TIME JOB) ہے اور آپ 50  ،60میل کا سفر کر کے بھی تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں ۔ میری بات سن کر شاہد میر مسکرائے اور بولے بھائی اسلم میں کیا کروں، دوست بلاتے ہیں تو مجھ سے انکار نہیں ہوتا ۔

شاہد میر پاکستان تحریک انصاف کے باقاعدہ رکن تو نہیں مگر عمران خان کے بہت بڑے فدائی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال پر وہ بہت متفکر تھے ۔ وہ کہنے لگے آج کل عمران خان سے جو سلوک کیا جا رہا ہے اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟(اس وقت تک عمران خان کو گرفتار نہیں کیا گیاتھا) میں نے جواب دیا کہ سیاسی حالات کو دل پر نہیں لینا چاہیے اور اتنا فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں 75 برس سے جو کچھ ہوتا چلا آیا ہے، اب بھی وہی ہوگا ۔ہمارے جیسے اعمال ہیں ہمیں ویسے ہی ”عمال”( حکمران ) ملیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ روبہ زوال ہے۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ لوگ بیٹیوں کو وراثت کا حق نہیں دیتے۔ بہن بھائیوں، ہمسایوں اور پارٹنرز کی حق تلفی عام ہے، عام اخلاقی کمزوریاں پھیل چکی ہیں، کچہریوں میں مقدمات ہی مقدمات ہیں ، ہر سائل کے پاس حق تلفی اور ظلم کی کہانی ہے۔ ان حالات میں حکمران بھی ایسے ہی ہوں گے ،جب ہم ٹھیک ہوں گے تو حالات بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس پر وہ کچھ مطمئن دکھائی دیئے۔ میں نے مزید کہا کہ ہم سارا زور ”اسباب” پر لگا دیتے ہیں ۔ اوپر اللہ پاک کی ذات بھی ہے جس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ۔

 بھائی ادریس کہنے لگے آپ کے بچے بڑے ہو رہے ہیں، آپ 30 میل کا سفر کر کے روزانہ گلاسگودکان پر آتے ہیں اور آپ کی دوست داری بھی بہت ہے،آپ فنکشنز میں بھی ٹائم دیتے ہیں۔آپ کو چاہیے کہ بچوں کو گلا سگو لے آئیں،گلاسگو میںمساجد اور مدارس بھی ہیں جو بچوں کی تربیت کے سلسلے میں مددگار ثابت ہو ں گے ۔ بھائی ادریس کی باتیں سن کر شاہد میر بولے، آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں ۔ میں ایسا ہی کروں گا ۔باتیں کرتے کرتے شاہد میر کی دکان بند کرنے کا وقت ہو گیا ۔مجھے اپنے بھتیجے فاروق کے گھر جانا تھا اور فاروق کا گھر شاہد میر کے گھر کے راستے ہی میںہے۔ وہ بولے کہ میں آپ کو فاروق کے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں ۔

شاہد میر مجھے چھوڑنے کے لیے فاروق کے گھر تک آئے۔ کار میں بھی ان سے گپ شپ ہوتی رہی اور پھر فاروق کے گھر میں بھی ہم ایک گھنٹہ تک باتیں کرتے رہے۔ دوسرے دن شاہد میر نے سوشل میڈیا پر یہ تمام تفصیلات شیئر بھی کر دیں اور ا س طرح انہوں نے میرے گلاسگو آنے کی اطلاع دوستوں کو دی ۔ مجھے کہنے لگے کہ تقریب رکھ لیتے ہیں ۔شاہد میر کو تقریبات میں شرکت کا جس قدر شوق ہے، میں تقریبات سے اتنا ہی بھاگتا ہوں ،میں نے معذرت کر لی۔ میری پاکستان واپسی سے تین دن پہلے ان کا فون آیا اور وہ بتانے لگے کہ پاکستان سے سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق اور سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے بھائی عبد القدیر اعوان آئے ہوئے ہیں۔ اڑتی اڑتی خبر یہ بھی ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ان دنوں گلاسگوہی میں ہیں ۔شاہد میر نے مزید کہا کہ ایک صحافی دوست نے تقریب کا انعقاد کیا ہے جس میں اپ کا شرکت کرنا بہت ضروری ہے لیکن میں نے حسب عادت ایک بار پھر معذرت کر لی ۔

شاید میر پکے نمازی ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بہت زیادہ تقریبات میں شرکت کرنیوالے لوگوں سے نماز کے معاملے میں غفلت ہو جاتی ہے لیکن ان پر اللہ تعالی کا یہ کرم ہے کہ وہ نماز نہیں چھوڑتے۔ انہوں نے پچھلے برس عمرہ بھی ادا کیا ہے۔میری پاکستان روانگی سے ایک روز پہلے شاہد میر گلاسگو سے اپنے گھر ‘ارون ”( IRVINE) بذریعہ موٹروے جا رہے تھے۔ راستے میں بارش ہو رہی تھی، اچانک ان کی کار پھسل کر الٹ گئی ،شاہد میر شدید زخمی ہوئے۔یہ حادثہ دیکھ کر ایک کار سوار انگریز خاتون نے اپنی گاڑی روکی اور شاہد کی گاڑی کا دروازہ کھولنا چاہا لیکن دروازہ بند تھا۔ اس نیک دل خاتون نے ایمبولنس بلوائی اور پولیس کو بھی فون کیا ۔گاڑی کے دروازے اور کھڑکی کاٹ کر شاہد کو نکالا گیا۔ ان کے جگر پر زخم آیا تھا۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا آپریشن ہوا اور انہیں ہفتہ ،دس دن ہسپتال میں رہنا پڑا مگر بستر علالت پر بھی شاہد میر تیسرے دن ہی سوشل میڈیا پر دوبارہ متحرک ہو گئے۔ وہ اپنی عیادت کے لیے آنے والے تمام دوستوں کی تصویروں کے ساتھ پوسٹیں باقاعدگی کے ساتھ فیس بک پر لگاتے رہے ۔

 شاہد میر اپنے حلقہ احباب کی محبوب شخصیت ہیں اور سماجی اور ثقافتی تقریبات کی جان ہیں۔ ان کے نظریات واضح ہیں اور وہ غیر مبہم گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی تیمارداری کے لیے میں نے فون کیا تو ان سے کہا کہ اب آپ نے تقریبات میں نہیں جانا لیکن وہ باز نہ آئے اور اتنے شدید حادثے کے دو ہفتے ببعد ہی تقریبات اور سرگرمیوں میں شرکت شروع کر دی جس سے یہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ شاہد میر سے آپ بہت کچھ منوا سکتے ہیں لیکن یہ انہیں سماجی تقریبات سے دور نہیں رکھ سکتے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ فیصل آباد کے ایک سپوت نے دیار غیر میں نام پیدا کیا ہوا ہے ۔ اللہ تعالی شاہد میر کو سلامت اور خوش رکھے ۔

۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *