15مئی کو وفاقی حکومت کی مدد سے پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا: سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس میں پی ڈی ایم حکومت کا ججز پر اعتراضات مسترد کیے جانے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے 32 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں کہا گیا ہےکہ تین ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے بینچ رکن کوہراساں کرنے کیلئے دائرکی گئی، عدالت نے نوٹ کیا وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے تاخیرکی، وفاقی حکومت نے مختلف چالوں اورحربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیرکی اور وفاقی حکومت نے عدالت کی بے توقیری کی۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ عدالت کی بے توقیری کا سلسلہ یکم مارچ 2023 سے شروع کیا گیا، یکم مارچ 2023 سے کہا گیا چار تین کی اکثریت سے اسپیکرکی درخواست مسترد کی، وفاقی حکومت 4 اپریل کے فیصلےکو چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے پیچھے چھپی، وفاقی حکومت کا مقصد اپنی بے عملی کو جواز دینا تھا، اس کے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ ری ویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون منظورکیا جسے سپریم کورٹ غیرآئینی قرار دے چکی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ اعتراض کی درخواست دائرکرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بینچ سے الگ کرنا تھا، وفاقی وزرا نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کے خلاف بیان بازی کی، وزرا نے صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کےخلاف کیس میں اشتعال انگیزبیانات دیے، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے اس رویے کو انتہائی تحمل اور صبرسے برداشت کیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ 15 مئی کوپنجاب اسمبلی میں14مئی کو انتخابات کے عدالتی فیصلے پر رکاوٹ کے لیے مظاہرہ کیاگیا، اُس مظاہرے کا پریشان کن پہلو حکومت کی اتحادیوں کو عدالت کے خلاف احتجاج میں دی گئی مدد تھی، ان سب کا مقصد عدالت اور ججوں پر دباؤ ڈالنا تھاکہ وہ کوئی بھی فیصلہ نہ کریں یا حق میں فیصلہ دیں، وفاقی حکومت کی مدد سے پاورشو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ وفاقی حکومت کے عدالتی فیصلوں پرعمل درآمد میں عدم تعاون پر تحمل کیا، عدالتی فیصلے نہ ماننے پر وفاقی حکومت کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی، آڈیو لیکس آنے پر وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں نے عدالتی فیصلوں اورکارروائی پر دھمکیاں دیں، ججز پر حملے کی ایک مثال 15مئی کو سامنے آئی، 15 مئی کو عدالت الیکشن کمیشن کی4 اپریل کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل پرسماعت کررہی تھی، 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے پنجاب میں14 مئی کوانتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، 15 مئی کو حکومت کی اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہرجارحانہ مظاہرہ کیا، جارحانہ مظاہرے میں چیف جسٹس پاکستان کو سنگین نوعیت کی دھمکیاں دی گئیں، دھمکیاں دینے کا مقصد عدلیہ پر دباؤ ڈالنا تھا۔