گلاسگو اور فتح محمد اشرف کی سماجی خدمات

پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 10)

تحریر: محمد اسلم

اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف نعمتیں عطا کی ہیں۔ وہ کچھ لوگوں کو دولت سے نوازتا ہے تو کچھ کے دل میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ خدمت خلق کے لیے بہت زیادہ دولت مند یا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں،آج ہم ایک ایسی ہی شخصیت کا ذکر کریں گے جس نے غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود خدمت خلق کی قابل رشک مثالیں قائم کی۔ اس شخصیت کا نام فتح محمد تھا ۔ فتح محمد ضلع لدھیانہ کی تحصیل جگراواں کے گاؤں ”مدار پور”میں 1910میں پیدا ہوئے ۔ان کی عمر صرف چار برس تھی جب پہلی جنگ عظیم1914میں شروع ہو گئی ۔جنگ عظیم اول کا خاتمہ 1919 میں ہوا جس میں ایک کروڑ فوجی مارے گئے۔ اس جنگ میں ہندوستان کے 10لاکھ فوجی دنیا بھر میں کئی محاذوں پر جا کر لڑے جن میں سے 67ہزار فوجی مارے گئے۔ جنگ میں زندہ بچ جانے والے فوجی جب ہندوستان واپس آئے تو اپنے گاؤں کی چوپالوں میں یورپ ، مصر،افریقہ، عراق اور برما کی باتیں سنانے لگے ۔یہ باتیں سن کر کئی نوجوانوں کے دل میں بیرون ملک جا کر قسمت آزمائی کرنے کی امنگیں انگڑائیاں لینے لگتیں۔ ان دنوں بیرون ملک جانے کے لیے پاسپورٹ کافی تھا اور ویزہ بنوانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہندوستان بھر کے دیہاتوں سے بہت سے نوجوانوں نے یورپ جانے کی ٹھانی جس کے لیے بحری جہاز کا چند سو روپے کا ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا جس کے بعد نوجوان کلکتہ بمبئی یا کراچی سے بحری جہاز پر بیٹھتے اور برطانیہ کی کسی بندرگاہ پر جا اترتے۔ 17 سالہ فتح محمد شرف کے والد محمد یعقوب کا تعلق ارائیں برادری کے زمیندار گھرانے سے تھا ۔فتح محمد شرف نے بمشکل دو جماعتوں تک تعلیم حاصل کی تھی ، وہ 1927 میں برطانیہ چلے گئے۔ جاتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ وہ تھوڑے بہت پیسے کمائیں گے اور پھر وطن لوٹ کر زرعی رقبہ خریدیں گے اور سکھ چین کی زندگی بسر کریں گے۔ بحری جہاز کا کرایہ دینے کے بعد ان کی جیب میں صرف ایک پونڈ تھا ۔کئی روز کے سمندری سفر کے بعد بحری جہاز لندن کی بندرگاہ پر پہنچا۔

 لندن پہنچ کر فتح محمد شرف نے نیا ماحول دیکھا ،وہ انگریزی زبان سے نا بلد تھے اور لندن میں ان کی جان پہچان والا کوئی فر د موجود نہ تھا ۔ انہوں نے کچھ عرصہ کپڑے کی ایک فیکٹری میں ملازمت کی۔ چند ماہ لندن میں رہنے کے بعد وہ 400 میل دور گلاسگو میں اپنے رشتے کے چچا عطا محمد اشرف کے پاس چلے گئے جو عمر میں ان سے نو برس بڑے تھے اوروہ چند سال پہلے ہی گلاسگو آئے تھے۔ عطا محمد شرف نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا ۔اس وقت گلاسگو میں گنتی کے چند مسلمان ہی رہتے تھے۔ یہ سب مسلمان پیڈلر یعنی پھیری لگانے کا کام کرتے تھے اورDOOR TO DOORجا کر اپنا رزق کماتے تھے۔ یہ لوگ 24 سے 28 انچ لمبا سوٹ کیس جو 15 سے 20 انچ موٹا ہوتا تھا۔ اس میں 10 کلو وزن کی اشیائے ضروریہ ڈالنے کے بعد یہ بس میں بیٹھ جاتے اور مضافاتی اور نواحی علاقوں میں پہنچ کر گلی گلی پیدل چل کر سامان فروخت کرتے۔ انہوں نے اپنے مستقل گاہک بنا رکھے تھے۔ یہ بہت محنت کا کام تھا ۔آج کے مقابلے میں گلاسگو میں اور اس کے ارد گرد شدید برف پڑتی تھی، سردی کا موسم بہت طویل ہوتا تھا ان کٹھن حالات میں کئی کئی گھنٹے پیدل چل کر کام کرنے کے بعد جب یہ لوگ واپس گھروں میں پہنچتے تو اپنے لیے کھانا بھی خود ہی بنانا پڑتا۔ 1927  میں ایک عام مزدور کی ہفتہ وار تنخواہ 3پونڈ اور ماہانہ تنخواہ 12 پونڈ تھی جو ہندوستانی کرنسی کے مطابق 120 روپے ماہانہ بنتی تھی۔ ان حالات میں فتح محمد شرف نے حوصلہ نہ ہارا اور کام کرتے رہے اور ہر ماہ چند روپے کی بچت بھی کرتے رہے ۔

 فتح محمد شرف 1927کے بعد ہندوستان واپس نہ گئے ۔ اس دوران 1947میں پاکستان بن گیا ۔

پاکستان بنا تو ان کے والد محمد یعقوب خانیوال آگئے ۔ فتح محمد شرف 1953 میں پہلی بار اپنے نئے ملک پاکستان آئے۔ انہوں نے یہ سفر بائی ایئر کیا ۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے شادی کی ۔ انہوں نے خانیوال شہر میں ایک رہائشی مکان بھی خریدا۔ چند ماہ یہاں رہنے کے بعد اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس چلے گئے ۔فتح محمد شرف کے سب بچے 1954کے بعد گلاسگوہی میں پیدا ہوئے ۔پھر انہوں نے گلاسگو کے ایک علاقے ”گوربل” (GORBAL) میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی ہول سیل کی دکان بنا لی۔ دکان خوب چلی ۔فتح محمد شرف کے دل میں اللہ تعالی نے ایثار ،قربانی اور خدمت خلق کا جذبہ رکھا تھا ۔وہ نئے پاکستانیوں کو ادھار مال دے کر پیڈلر بنا کر بھیج دیتے تھے۔ ان کا دل بہت کھلا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور فتح محمد شرف پاکستانی کمیونٹی میں معروف اور ممتاز ہوتے گئے ۔پھر چند سالوں بعد حبیب بینک لمیٹڈ نے انہیں پاکستان رقم ارسال کرنے کا لائسنس دے دیا۔1964  میں جب صدر ایوب خان ا یڈنبرا آئے تو فتح محمد شرف گلاسگو میں پاکستانی کمیونٹی کے صدر تھے ۔انہیں خصوصی طور پر ایڈ نبرا بلایا گیا اور صدر ایوب سے ملاقات کرائی گئی۔ 1970 کے عشرے میں ان کو پی آئی اے کی ایجنسی بھی مل گئی۔ یہ پی آئی اے کا دور عروج تھا اور بیرون ملک مقیم پاکستانی بہت محب وطن تھے۔ وہ پی آئی اے میں سفر کرنے کو اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے تھے۔ دوسری طرف فتح محمد شرف کی خدمت خلق کا عالم یہ تھا کہ لوگ ان کے دفتر میں آکر کہتے کہ مجھے کراچی یالاہور کا ٹکٹ دے دیں میں واپس آ کر آپ کو پیسے دوں گا اور وہ یہ بات مان جاتے تھے۔ کئی لوگ واپسی پر انہیں پیسے بھی نہیں دیتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ لوگ اپ کو بے وقوف بناتے ہیں تو وہ عجیب شان بے نیازی کے ساتھ بولے” کوئی بات نہیں، بنانے دو ”۔

وہ اتنے وسیع القلب تھے کہ گلاسگو میں مقیم پاکستانیوں میں سے کوئی انتقال کر جاتا تو وہ بہت سارے افراد کی میتیں اپنے خرچے پر پاکستان بھیج دیتے تھے۔ 1975 میں فتح محمد شرف نے اپنی پہلی دکان ساؤتھ پورٹ لینڈ (SOUTH PORTLAND)سے برج سٹریٹ(BRIDGE STREET )میں منتقل کر دی ۔ گلاسگو کی مرکزی مسجد کی تعمیر میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ ہر جنازے میں شرکت کرتے تھے۔غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود برطانیہ کے سرکاری محکموں میں اپنی کچی پکی انگریزی بول کر اپنے ہم وطنوں کے کام کرواتے تھے۔ وہ مسجد کمیٹی کے صدر بھی تھے اور گلاسگو میں پاکستانی کمیونٹی کے صدر بھی تھے۔ وہ ایسے نیک دل تھے کہ اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں دانستہ بے وقوف بنتے تھے۔ ان کی انہی خصوصیات نے انہیں پاکستانی کمیونٹی میں ہر دل عزیز بنا دیا ۔  فتح محمد کے نام کے ساتھ شرف کا اضافہ کیسے ہوا ،یہ قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ گلاسگو میں کاغذی کارروائی پوری کرتے ہوئے جب فتح محمد سے پوچھا گیا کہ اپ کا فیملی نیم FAMILY NAMEکیا ہے تو انہوں نے رشتے کے چچا عطا محمد اشرف سے یہی سوال کیا ۔عطا محمد نے کہا ہندوستان میں تو فیملی نیم ہوتے نہیں، میں اپنے نام کے ساتھ اشرف لکھتا ہوں تم الف ہٹا کر ”شرف” لکھوا دو اس طرح فتح محمد نے اپنا نام فتح محمد شرف لکھا اور اسی نام سے معروف ہو گئے ۔

 فتح محمد شرف کی سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ملکہ برطانیہ نے انہیں MBE ایوارڈ بھی دیا ۔ملکہ الزبتھ سے ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب میں فتح محمد شریف کی اہلیہ اور بیٹے یاسین نے بھی شرکت کی تھی۔فتح محمد شرف کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا یاسین 1957 میں گلا سگو میں پیدا ہوا اس کے باوجود وہ روانی سے اردو اور پنجابی بولتا ہے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ کاروبار کرتا رہا لیکن والد کی وفات کے بعد وہ اب کسی پاکستانی کی کمپنی ورلڈ ٹریولز میں ملازمت کر رہا ہے۔ فتح محمد شرف کے بارے میں گفتگو کرنے اور معلومات حاصل کرنے کے لیے میں نے یاسین سے ملاقات کی ۔میں اپنے بڑے بھائی محمد ادریس کے ساتھ یاسین کے دفتر میں گیا۔ یاسین انتہائی محبت کے ساتھ پیش آیا۔ میں نے ا سے بتایا کہ میری آپ کے والدفتح محمد شرف سے 20 سا ل شناسائی رہی۔ان سے پہلی ملاقات 1968 میں گلاسگو میں ہوئی تھی۔ وہ انتہائی شفیق، نرم دل ،دوسروں کی مدد کرنے والے آدمی تھے۔ ان کی لغت میں” نہیں” کا لفظ نہیں تھا ۔وہ عام آدمی نہیں تھے۔ یاسین کہنے لگا ”میرے والد واقعی ایسے ہی تھے ”۔ میں نے یاسین کو یہ بھی بتایا کہ فتح محمد شرف سے میری ان سے آخری ملاقات ان کی وفات سے چند ماہ قبل ہوئی۔ اس وقت ان کا کاروبار پہلے کی نسبت ٹھنڈا پڑ چکا تھا کیونکہ پی آئی اے کے مقابلے میں بہت سی ایئر لائنز آگئی تھیں بالخصوص اردن کی عالیہ ایئر لائنز اور کویت، مصر اور دیگر ممالک کی ایئر لائنز نے اپنا کاروبار خوب جما لیا تھا ۔

 اس ملاقات کے دوران مجھے پتہ چلا کہ یاسین نے شادی نہیں کی۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ تم نے زندگی تنہا کیوں گزار دی تو اس نے جواب دیا کہ میرا شادی کرنے کو دل نہیں مانا ۔ اس نے بتایا کہ ملکہ الزبتھ نے اس کے والد فتح محمد شرف کو ایک بار بکنگھم پیلس اور دو مرتبہ ایڈ نبرا کے محل میں بلایا تھا ۔ فتح محمد شرف اخری بار 1984 میں پاکستان آئے۔ انہوں نے حج بھی کیا۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل انہیں سانس کی تکلیف رہنے لگی تھی۔ انہیں گلا سگو کے نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تو ان کی حالت زیادہ خراب نہ تھی لیکن ہسپتال پہنچ کر ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ میرے(کالم نگار کے ) بڑے بھائی محمد ادریس ان کی عیادت کے لیے گئے تو وہ اپنے بستر پر لیٹے لیٹے کہنے لگے ” ادریس !سب کچھ صحت سے ہے، اب مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، پیسہ نہ دولت”۔

 فتح محمد شرف 4 نومبر1988کو انتقال کر گئے ۔ انکا جنازہ اٹھایا گیا تو شہر سے لے کر قبرستان تک دونوں اطراف احترام دینے کے لیے پولیس والے کھڑے ہوئے تھے اور ہر فرلانگ کے فاصلے پر دو سپاہی ان کے تابوت کو سلیوٹ کرتے۔ قبرستان کے گیٹ پر گلا سگو کا لارڈ میئر اور چیف کانسٹیبل بھی موجود تھا گویا ان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ان کے جنازے میں تین ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی، نماز جنازہ حافظ محمد شفیق نے پڑھائی۔ اس موقع پر مقامی گورے بھی موجود تھے جو فتح محمد اشرف کی طویل سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آئے تھے ۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ آدمی اپنے اخلاق سے بڑا ہوتا ہے ۔(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *