صدر اپنے عملے کے جن لوگوں پر الزام لگا رہے ہیں وہ سب سویلین نہیں، یہ حساس معاملہ ہے: حامد میر
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ کرنے کے حوالے سے اپنے عملے پر الزام انتہائی سنگین معاملہ ہے۔
گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد دونوں بل قانون بن گئے ہیں۔
تاہم آج صدر عارف علوی نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دسختظ کرنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا، ان بلوں سے جو لوگ متاثر ہوں گے ان سب سے معافی مانگتا ہوں۔
اس حوالے سے سینئر صحافی حامد میر نے خصوصی ٹرانسمیشن میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہنا تھا یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے کہ صدر نے بیان دے دیا اور بس، اس معاملے میں صدر عارف علوی کو تمام ثبوت پیش کرنے ہوں گے ورنہ پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق بن کر رہ جائے گا کہ یہ کیسی ریاست ہے کہ جس کا سربراہ اس بل پر اعتراض اٹھا رہا ہے جس کا وہ خود سربراہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر کو ثبوت کے ساتھ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ سچ بول رہے ہیں، اگر ان کے دستخط کے بغیر کسی بل کو قانون بنایا گیا ہے تو پھر ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے کیونکہ یہ ریاست، آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے۔
حامد میر کا کہنا ہے اس بل کے معاملے میں ایک فرد نہیں بلکہ 3 سے 4 افراد ملوث ہیں اور جو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں وہ سب سویلین نہیں ہیں جس سے آپ اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صدر کے قریبی ذرائع کے مطابق صدر کے ذرائع کے مطابق عارف علوی نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ ان بلوں پر دستخط نہیں کر رہے لہذا ان بلوں کو واپس بھیج دیں لیکن جب ٹی وی پر یہ خبریں چلیں کہ صدر نے بل پر دستخط کر دیے ہیں تو اس وقت سے ہی عارف علوی پریشان تھے تاہم انہیں عملے کی جانب سے بتایا گیا کہ بل واپس بھیج دیے گئے ہیں اور میڈیا پر چلنے والی خبریں درست نہیں ہیں۔
حامد میر کا کہنا ہے اس معاملے میں اصل حقائق اس وقت سامنے آئیں گے جب صدر کے عملے کا مؤقف سامنے آئے گا، عملے کا مؤقف سامنے آنے کے بعد ہی صورتحال واضح ہو گی کہ کون سچ کہہ رہا ہے اور کون غلط بیانی کر رہا ہے۔
سینئر صحافی کے مطابق صدر عارف علوی نے اس سلسلے میں ایک ممتاز آئینی ماہر اور وکیل سے صلح مشورہ بھی کیا ہے اور عارف علوی اس معاملے پر اپنے عملے کے خلاف قانونی کارروائی اور عدالت جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔