اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ”محبت ”کے سوا
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 5)
تحریر: محمد اسلم
گلاسگو پہنچنے کے بعد پہلے چند روز اپنے بہن بھائیوں ، بھتیجوں ، بھتیجیوں ، بھانجوں اور بھانجیوںسے میل ملاقات میں ہنسی خوشی گزر گئے ۔اس دوران میں گلاسگو کی تین مشہور مساجد، سنٹرل مسجد، نور مسجد اور ”مدرسہ والی مسجد”میں نمازیں ادا کرنے کا موقع ملا اور وہاں پر کئی پرانے جاننے والوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ملنے والوں کی اکثریت نے کہا کہ تم بہت عرصے کے بعد برطانیہ آئے ہو، اتنی دیر تم کہاں رہے اور برطانیہ آنے کا خیال تمہیں کیوں نہیں آیا؟میںکیا کہتا، فیض کا مشہور شعر یاد آیا :
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ”محبت ”کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
گلاسگو شہر لندن سے 400 میل دور واقع ہے۔ یہ نہ کوئی صنعتی علاقہ ہے اور نہ ہی کوئی بڑا تجارتی مرکز ہے مگر یہاں مقیم چند پاکستانی گھرانے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ وہ باہر کے ممالک سے ٹیکسٹائل اور ہارڈ ویئر کا سامان امپورٹ کر کے سارے برطانیہ میں فروخت کر رہے ہیں اور معاشی طور پر بہت خوشحال ہیں ۔ پاکستانیوں کے درجن بھر کاروباری اداروں میں تین بڑے ادارے شیر برادرز ،سلیمان کیش اینڈ کیری اور بونینزا لمیٹڈ بھی شامل ہیں۔ ان تینوں اداروں کے مالکان سے ہمارے تقریباً نصف صدی پرانے تعلقات ہیں ان لوگوں کی برطانیہ آمد اور معاشی جدوجہد کی کہانیاںدلچسپ اور سبق اموز ہیں۔
شیر برادرز والے چوہدری شیر محمد کے والد چوہدری فتح کا تعلق لدھیانہ سے تھا ۔ 1910کے عشرے میں جب انگریز نے بارآباد کی تو مشرقی پنجاب اور دیگر علاقوں کے لوگوں کو پیشکش کی کہ وہ زمین الاٹ کروا کر اسے آباد کریں۔ شیر محمد کے والد کو سمندری رجانہ روڈ پر گاؤں ”کوٹا ں”میں ایک مربع اراضی ملی۔ شیر محمد کے چار بھائی تھے۔ سب سے بڑے بھائی کا نام فقیر محمد تھا ۔شیر محمد تین چار جماعتیں پڑھے ہوئے تھے ۔فقیر محمد نے شیر محمد سے کہا کہ گاؤں کے ایک دو آدمی برطانیہ گئے ہیں ہیں، تم بھی جا کر قسمت آزمائی کرو ۔1934 میں چوہدری شیر محمد نے گاؤں کو خیرباد کہا اور بذریعہ ٹرین کراچی پہنچے اور وہاں سے بحری جہاز پر لندن چلے گئے۔ اس وقت لندن جانے کے لیے صرف پاسپورٹ بنوانا پڑتا تھا اور ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لندن سے چوہدری شیر محمد اپنے گاؤں” کوٹا ں” کے ایک شخص کے پاس گلا سگو پہنچ گئے۔” کوٹا ں”کا یہ شخص چند دیگر لوگوں کی طرح گلاسگو شہر سے ٹائیاں ، جرابیں ،زیر جامے اور دیگر سامان خرید کر 20 ،25 میل دور نوا حی علاقوں میں جا کر سامان فروخت کرتا تھا۔ وہ گھریلو خواتین کو ادھار پر مال دے دیتا تھا، وہ دو ہفتے کے بعد چکر لگا کر پیسے وصول کر لیتا اور مزید مال فروخت کر آتا۔ اس دوران گلی گلی جا کر برا حال ہو جاتا تھا۔ اس نوعیت کے کام کو ”ڈور ٹو ڈور بزنس ”(DOOR TO DOOR BUSINESS)کہتے ہیں ۔ چوہدری شیر محمد نے بھی ابتدا میں یہ کام کیا اور پھر اپنے تین چھوٹے بھائیوں ،چوہدری رحمت علی ،چوہدری حشمت علی اور محمد علی کو بھی 1949 کے لگ بھگ گلاسگو بلالیا۔ 1955کے لگ بھگ اس خاندان نے ریڈی میڈ گارمنٹس کی چھوٹی سی دکان خرید لی اورخوب محنت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے چار بڑے سٹورز کے مالک بن گئے ، شیر برادرز بیرون ملک سے مال امپورٹ کرکے فروخت کر نے لگے۔ شیر برادرز کے پانچوں بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے اور اب ان کے بچے کاروبار کرتے ہیں۔ان کی اولاد میں منور حیات ، طارق علی ، غفار اور امجد اور دیگر شامل ہیں ۔
دوسرا بڑا نام سلیمان کیش اینڈ کیری کا ہے۔ سلیمان کیش اینڈ کیری کے مالک محمد سلیمان لدھیانہ کے گاؤں رام پور میلود (MELOD)میں 1936 میں پیدا ہوئے۔ وہ تین جماعتیں ہی پڑھ سکے۔ ہجرت کے موقع پر اپنے والد کے حملہ پیدل قصور پہنچے وہاں سے ان کے والد پیر بخش اپنے گھرانے کے ساتھ ایک دوست کے پاس کمالیہ آئے اور بازار میں کپڑے کی دکان بنا لی۔ پھر ان کا گھرانہ 1957 میں لائل پور منتقل ہو گیا اور وہ یہاں پر بھی کپڑے کا کاروبار کرتے رہے۔محمد سلیمان کے بیٹے امتیاز 1956 میں کما لیہ میں اور ریاض 1959 میں لائل پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے چچا جنگ عظیم دوم میں اٹلی میں ڈیوٹی دیتے رہے تھے ، ان کی باتوںسے متاثر ہو کر محمدسلیمان کو برطانیہ جانے کا خیال آیا۔ اس وقت برطانیہ جانے کے لیے ویزا لینے کی ضرورت نہیں تھی۔۔ محمد سلیمان اپریل 1961 کو برطانیہ روانہ ہوئے،وہ لندن میں ایک ہفتہ قیام کے بعد اپنے دوستوں کے پاس ہڈرز فیلڈ چلے گئے اور وہاں پر کوئلے کی کان میں کام کرنے لگے۔ وہ ہفتے میں چھ روز کام کرتے اور ان کی تنخواہ 8 پاؤنڈ تھی۔ بعد میں انہوں نے ایک سپننگ ملز میں بھی بطور مزدور کام کیا۔ 1972میں وہ اپنے ایک دوست امام دین کے کہنے پر گلاسگو شفٹ ہوگئے اور گروسری کی دکان خرید لی۔ 1976 میں انہوں نے فلاسگو کے ایک محلہ ”گوربل ”(GORBAL ) میں کپڑے کا ہول سیل کا کاروبار شروع کر دیا۔ بعد میں انہوں نے ٹیکسٹائل مصنوعات کے علاوہ ہارڈویئر کا سامان بھی رکھا اللہ تعالی نے اس کاروبار میں بہت برکت ڈالی اور آج سکاٹ لینڈ میں ان کے خاندان کا ایک نام ہے۔ یہ لوگ ریڈی میڈ گارمنٹس اور ہارڈ ویئر چین سے امپورٹ کرتے ہیں۔ سیٹھ سلیمان کا تین برس قبل انتقال ہو گیا۔ اب ان کے بیٹے امتیاز اور ریاض کاروبار چلا رہے ہیں۔
بونینزا لمیٹڈ والے محمد شریف 1939 میں لدھیانہ کے علاقہ رائے کوٹ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور یہ گھرانہ کمالیہ میں آباد ہوا ۔محمد شریف نے میٹرک کا امتحان کمالیہ میں ہی پاس کیا۔ ان کا تعلق ارائیں برادری سے تھا۔ اپنے دوستوں سے متاثر ہو کر وہ جنوری 1961 میں برطانیہ چلے گئے جہاں پہلے ساوتھ آل اور پھر ہڈرز فیلڈ میںسکونت اختیارکی۔ ان کا بڑا بیٹا محمد اشرف جولائی 1959 میں پیدا ہوا ۔ یہ گھرانہ 1977 میں گلاسگو شفٹ ہوگیا۔ انہوں نے پہلے گروسری کی دکان داری کی اور پھر” بونینزا کیش اینڈ کیری ”کے نام سے ٹیکسٹائل کا تھوک کا کام کیا ۔یہ لوگ پاکستان اور ہانگ کانگ سے مال منگواتے ہیں اور تھوک میں فروخت کرتے ہیں۔ محمد شریف کا انتقال 21 فروری 2020 کو 81 سال کی عمر میں ہوا ۔ اب ان کے بیٹے محمد اشرف ،محمدزاہد ، محمد ارشد اور محمدشاہد کاروبار چلارہے ہیں۔
25 مئی کو میں بڑے بھائی محمد ادریس اور دوست رانا محمد عاشق کے ساتھ بونینزا لمیٹڈ کے مالک محمد اشرف سے ملنے کے لیے ان کے آفس گیاتو وہ اور ان کے بیٹے ذیشان گرم جوشی سے ملے ۔محمد اشرف کو چند ہفتے قبل دل کا دورہ پڑا تھا ، ملاقات کے وقت ان کی صحت ٹھیک لگی، وہ بہت خوش اخلاق آدمی ہیں۔ باتوں باتوں میں برطانیہ کے معاشی حالات کے بارے میں بات چل نکلی۔ محمد اشرف نے بتایا کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ نے پورے یورپ کی معیشت کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ پر ایسے حالات کبھی نہیں آئے تھے۔ سارے یورپی ممالک روس کے خلاف ہیں اور یوکرین کو اسلحہ اور فنڈز دے رہے ہیں۔ یورپ کو آدھی سے زیادہ گیس روس سے ملتی تھی لیکن اب روس نے انتقاماً یورپ کو گیس کی سپلائی تقریباًبند کر دی ہے۔ یورپ نے روس سے بگاڑکر ایک بہت اچھی منڈی گنوا دی ہے۔ موجودہ حالات میںبرطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں پہلی بار بجلی اور گیس کے گھریلو صارفین کے لیے ریٹ ڈبل ہو گئے ہیں۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 40 فیصد اور دیگر اشیا ئے ضروریہ کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے محمد اشرف نے کہا کہ برطانوی عوام مہنگائی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ پہلے لوگ دکان میں خریداری کرتے وقت بلاضرورت دکانوں سے چھوٹی موٹی چیزیںخرید لیتے رہتے تھے لیکن اب گھر سے جو سوچ کر آتے ہیں صرف وہی اشیا خریدتے ہیں جس کی وجہ سے جنرل سٹورز کی سیلز 50 فیصد کم ہو گئی ہیں جبکہ دکانوں کے اخراجات پہلے کی طرح ہیں اسی وجہ سے تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ میں نے کہا کہ پاکستان میں بھی بہت مہنگائی ہے تو محمد اشرف بولے کہ پاکستان کے لوگ مہنگائی کے عادی ہیں اور صابر لوگ ہیں،اچار اورچٹنی سے بھی روٹی کھا لیتے ہیں۔ برطانوی لوگ جلد گھبرا جاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ برطانیہ میں اس مہنگائی کا حل کیا ہے۔ محمد اشرف نے کہا کہ جب تک جنگ جاری ہے اس وقت تک اس کا مستقل بنیادوں پر کوئی حل نظر نہیں آتا ۔بہرحال برطانوی حکومت متبادل ذرائع سے سستی بجلی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگلے انتخابات میں کنزرویٹو( ٹوری) حکومت کے ہارنے کا ندیشہ ہے کیونکہ لوگ ان سے بہت بری طرح متنفر ہو چکے ہیں ۔کنزرویٹو پارٹی نے اپنے موجودہ دور اقتدار میں دو تین وزیراعظم بدلے مگر مہنگائی کم نہ کر سکی اور اب ہندوستانی نژاد شہری برطانیہ کے وزیراعظم بنے ہیں، ان سے بھی مہنگائی کنٹرول نہیں ہو پا رہی۔آئندہ الیکشن میں لیبر پارٹی کو کامیابی نصیب ہونے کا امکان ہے۔ (جاری ہے)