ایسا مشن جو بظاہر ناممکن تھا وہ مکمل ہوا
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط نمبر28)
تحریر: محمد اسلم
گزشتہ کالم میں ذکر کیا گیاتھا کہ میں نے1979میں اپنے ماموں حاجی محمد یوسف کی خواہش پر انگلینڈ میں ان کے بیٹے عبداللہ کی تلاش شروع کی اور برطانیہ کے شہرگلاسگو سے برمنگھم پہنچا۔ برمنگھم سے میں فیصل آباد والے نذیراحمد کے ساتھ اس کے ٹرالر پر بیٹھ کر کارڈف کے لیے روانہ ہوا ۔ نذیر عمر میں مجھ سے سات سال بڑا تھا،( اس کا حال ہی میں 2022 میں انتقال ہوا ہے) ۔وہ 1965 میں کارڈف آیا تھا اور انگریز خاتون سے شادی کی تھی ۔نذیر کا تعلق ہماری افریقہ والی کمیونٹی سے تھا اور میں اسے اپنے بچپن ہی سے جانتا تھا۔ نذیر کو جب معلوم ہوا کہ میں عبداللہ کو تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہوں تو وہ بہت حیران ہوا۔ راستے میں اس نے مجھے بتایا کہ عبداللہ نے تو 13سال پہلے ہی کارڈف سے 15 میل دور ساحل سمندر پر ایک چھوٹے سے قصبے کے ایک ریسٹورنٹ پر ملازمت کر لی تھی ۔ اس کے بعد اس کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں چلا گیا ۔
کارڈف شہر پہنچ کرنذیر نے ایک گلی میں بریک لگائی اور گھر پر دستک دی ۔اقبال باہر نکلا تو نذیر نے کہا ، ” اپنا مہمان سنبھالو ”،اقبال نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس سے پہلے میری اس سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ہم ایک دوسرے کے ناموں سے آشنا تھے،اقبال ایک مقامی بیکری میں ڈبل روٹی بنانے کا کام کرتا تھا ۔ اقبال کی بڑی ہمشیرہ باجی انور بھی آگئیں۔ ان کے شوہر رفیع بس ڈرائیور تھے۔ ہم لوگ رات دیر تک گپ شپ کرتے رہے ۔عبداللہ کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ میں نے اقبال کو تیار کیا کہ صبح ہم نے عبداللہ کی تلاش کے لیے ساحل پر قصبے میں جانا ہے۔ باجی انور نے کہا اگر تم نے سچ مچ عبداللہ کو ڈھونڈ لیا تو حاجی یوسف نے اس خوشی میں تمہیں سونے کا تاج پہنا دینا ہے۔ دوسرے روز ناشتے کے بعد میں اور اقبال بس پر کارڈف سے نزدیکی ساحل سمندر کے چھوٹے قصبے کی طرف روانہ ہوئے۔ قصبے میں پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ ایک چوڑی سڑک کے دونوں اطراف 100کے قریب دکانیں تھیں۔ وہاں پر کوئی رہائشی مکان نہ تھے ۔ہم ان دکانوں میں وہ ریسٹورنٹ ڈھونڈنے لگے جس میں عبداللہ کام کیاکرتا تھا ۔ہمیں وہاں پر کوئی ریسٹورنٹ نہ ملا۔شاید وہ ریسٹورنٹ فروخت کیاجا چکا تھا ۔ہم نے بوجھل دل سے واپسی کا ارادہ کیا تو اقبال نے اچانک کہا کہ کونے میں ایک دکان رہ گئی ہے، وہ بھی چیک کر لیتے ہیں ۔دکان پر پہنچے تو شٹر لگا ہواتھا ،ساتھ ہی سیڑھیاں اور جاتی تھیں ۔ہم اوپر گئے تو وہاں ایک رہائشی کمرہ تھا ۔ تقدیر مہربان ہو تو بظاہرنا ممکن نظر آنے والے کام کے لیے بھی دروازے کھلنے لگتے ہیں ۔میںنے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک نوجوان باہر آیا ۔میں نے اس نوجوان سے دکان کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا یہ دکان نہیں ریسٹورنٹ ہے ، دن کے وقت بند رہتا ہے اور شام کو کھلتا ہے ۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ ریسٹور نٹ میرے والد کا ہے اور وہ چھٹیاں گزارنے کے لیے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں ۔میں نے نوجوان سے کہا کہ عبداللہ نامی شخص کسی زمانے میں یہاں کام کرتا تھا، اس نوجوان نے جواب دیا ہمارے پاس تو عبداللہ نام کے کسی پاکستانی نے کبھی کام نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ عبداللہ کو”ایلن ”(ALLAN) بھی کہتے تھے یعنی ایلن اس کی عرفیت تھی۔ وہ نوجوان فورا ًبولا آپ انکل ایلن کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، ہاں، ہاں ! وہ ہمارے پاس دس سال پہلے کام کرتا رہا ہے ۔میں نے پوچھا کہ اب وہ کہاں ہے تو وہ نوجوان کہنے لگا کہ وہ لندن چلاگیاتھا ، میں آج سے پانچ سال پہلے چھٹیاں گزارنے کے لیے ان کے پاس لندن گیا تھا ۔میں نے اس کی بات سنتے ہی سجدہ شکر ادا کیا کہ ”بات” کا ”سرا” مل گیا اور مزید تفصیل پوچھی تو نوجوان بولا کہ اس وقت تو میں دس بارہ برس کا تھا۔ میرے باپ نے مجھے کارڈف سے ٹرین پر بٹھا دیا تھا اور ایلن انکل نے مجھے لندن میں ریسیو کر لیا تھا۔ میں نے مزید کریدا کہ تم لندن کے کس علاقے میں گئے تھے تو نوجوان کہنے لگا کہ ”سیون سسٹرز روڈ ”(Seven Sisters Road)لندن کی سب سے بڑی سڑک ہے۔ ایلن انکل وہاں ایک بنگالی کے ریسٹورنٹ پر کام کرتے تھے۔ یہ سڑک تقریباًتین میل طویل ہے ۔
ہم خوشی خوشی کارڈف شہر واپس آئے ۔محمد اقبال کے گھر میں میری ٹوبہ ٹیک سنگھ کے یاسین سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ مجھے کار پر اپنے گھر لے گیا ۔وہ کارڈف سے باہر ایک پہاڑی پر رہتا تھا ، ہم عبداللہ کی باتیں کرتے رہے ۔دوسرے روز میں نے اور اقبال نے لندن جانے کا پروگرام بنا لیا ۔ہم نے ریلوے اسٹیشن سے کارڈف تا لندن ریٹرن ٹکٹ لی ۔لندن پہنچ کر ہم سیون سسٹرز روڈ پر پہنچے تو تین میل طویل روڈ دیکھ کر ایک مرتبہ ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا کہ یہاں عبداللہ کو کس طرح تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ سیون سسٹرز روڈ پر اٹالین ،چینی اور بنگالی ریسٹورنٹس کے علاوہ سینکڑوں دکانیں تھیں ۔ہم نے ہمت مجتمع کی اور سڑک کی ایک طرف سے میں نے اور دوسری طرف سے اقبال نے بنگالی ریسٹورنٹس تلاش کرنے شروع کر دیئے۔ ایک میل چلنے کے بعد بھی ہمیں کوئی بنگالی ریسٹورنٹ نہ ملا تو ہم دونوں کی ہمت جواب دے گئی ۔ ہم سڑک کے کنارے ایک برگد کے نیچے بس سٹاپ پر کھڑے ہو گئے۔ اچانک اقبال نے بس سٹاپ کے عقب میں دیکھ کر کہا کہ اسلم !ہمارے پیچھے ایک بنگالی ریسٹورنٹ دکھائی دے رہاہے، ہمیں یہاں سے بھی پوچھ لینا چاہیے۔ تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہم نے اس ریسٹورنٹ کے اندر جا کر مینیجرسے پوچھا تو اس نے عبداللہ کے بارے میں کہا کہ اس نام کے آدمی نے ان کے پاس کبھی کام نہیں کیا۔میں نے مینیجرسے کہا کہ ہمارے کزن کا ایک نام ایلن بھی ہے تو وہ بولا اچھا! اچھا! ایلن! وہ چار سال پہلے میرے پاس کام کرتا تھا پھر وہ یہاں سے کام چھوڑ گیا ، یہاں پر کام چھوڑنے کے بعد وہ یہاں سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر کام کرنے لگا تھا۔
مینیجر نے جس ریسٹورنٹ کی نشاندہی کی تھی وہ ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھا ۔تھکاوٹ کے باعث ہم سے چلا نہیں جا رہاتھا پھر بھی ہم نے یہ فاصلہ پیدل ہی طے کیا اور وہاں پہنچ کر ایک ویٹر سے ملاقات کی ۔ اس نے بتایا کہ عبداللہ دو سال پہلے یہاں سے کام چھوڑ گیا تھا اوریہاں سے ایک فرلانگ دور ایک اور ریسٹورنٹ میں کام کرنے لگاتھا ۔ ہم اس تیسرے ریسٹورنٹ پر پہنچے اور مینیجرسے کہا کہ ہمیں ایلن سے ملنا ہے تو وہ بنگالی مالک ہمیں گالیاں دینے لگا اور بولا کہ ایلن میرے ریسٹورنٹ میں مینیجر تھا ، اس کی مس مینجمنٹ (Mismanagment) سے ہمارا ریسٹورنٹ برباد ہو گیا ، اس نے ویٹر سے کہا کہ یہ لوگ میرا وقت برباد کر رہے ہیں، انہیں باہر نکال دو۔ ویٹر ہمیں باہر نکالنے لگا تو میں نے اس دوران ویٹر سے پوچھا کہ عبداللہ اب کہاں کام کرتا ہے؟وہ بولا میں نے اسے پچھلے ہفتے دیکھا ہے، وہ یہاں سے چار میل دور فلاں ریسٹورنٹ میں کام کرتا ہے، تم وہاں چلے جا ؤ۔
ہم نے ویٹر کی بات سنی تو دل بہت زیادہ خوش ہوا ۔ذہن میں یہ خدشہ آیا کہ ویٹر عبداللہ کو ہماری آمد سے مطلع نہ کر دے اور عبداللہ وہاں سے چلانہ جائے ۔ ہم نے فوراً ٹیکسی لی اور بڑے تحمل سے ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اور اپنا تعارف کرایا کہ ”ہم ایلن(عبداللہ ) کے کزن ہیں ، اس نے ملاقات کے لیے بلایا تھا ”۔ یہ با ت سن کر وہاں کا ویٹرکہنے لگا کہ آج عبداللہ کی چھٹی ہے ، ہم نے اس سے عبداللہ کے گھر کا پتہ حاصل کیا ،ساتھ والی گلی میں عبداللہ کرائے کے ایک کمرے میں تیسری منزل پر رہتاتھا ، وہاں پہنچے تومکان کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ اسے ہماری آمد کی خبر مل گئی ہے اور وہ مکان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے لیکن عبداللہ اخبار لینے کے لیے نیچے گیا ہوا تھا،گھر پر اور کوئی نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد عبداللہ آیا، ہم نے کسی گرم جوشی کے بغیر اس سے مصافحہ کیا ۔ ہم نے بھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ ہم اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں ۔میں نے کہا کہ ہم تو پاسپورٹ کی تجدیدکرانے لندن آئے تھے، سوچا کہ تم سے بھی ملاقات کر تے جائیں ۔ عبداللہ کو تلاش کرنے کے بعد میں نے اپنے بھائی اکرم کو گلاسگو میں فون کر کے کہا کہ ”Mission Impossible Accomplished ” تو اکرم بولا ، یہ ممکن ہی نہیں کہ 50 گھنٹے میں تم عبداللہ کو تلاش کر لو۔میں نے کہا کہ واقعی ہم نے عبداللہ کو ڈھونڈ لیا ہے ۔ماحول بہت جذباتی تھا ، ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی ۔میں نے دوسرا فون عبداللہ کے چھوٹے بھائی محمد انور کو ہالینڈ میں کیا (ان دنوں انور ہالینڈ وزٹ پر آیا ہواتھا )۔ انور نے خوشی سے کہا میری عبداللہ سے بات کرا ؤ،میں نے انور کی عبداللہ کی بات کروائی،دونوں بھائی فون پر جذباتی باتیں کرتے رہے ۔ انور کہنے لگا مجھے کسی طریقے سے برطانیہ بلا لو ، میں عبد اللہ کے گلے لگنا چاہتا ہوں ۔عبداللہ ہم سے کہنے لگا کہ رات میرے پاس ہی رکو ،صبح چلے جانا ۔ میں نے محمد اقبال کو کارڈف واپسی کے لیے ٹرین میں بٹھا دیا اور خود عبداللہ کے ساتھ براستہ برمنگھم گلاسگو کے لیے روانہ ہوا ۔
ہم نے برمنگھم میں اپنے ماموں زاد بھائی محمد مشتاق کے پاس ایک رات قیام کیا ۔عبداللہ کو دیکھ کر میرے ماموں زاد بھائی مشتاق اور دیگر رشتہ دار بہت خوش اور حیران تھے کہ کس طریقے سے اتنی جلدی میں نے ایک گم شدہ فرد کو تلاش کر لیا ۔ہم نے دوسرے رو ز برمنگھم سے ٹرین پکڑی اور گلاسگو پہنچے تو میرا بھائی اکرم اور عبداللہ کی چھوٹی ہمشیرہ ہمیں لینے کے لیے اسٹیشن آئے ہوئے تھے۔ ان دونوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، اس طرح ایک نا ممکن کام کو اللہ تعالی نے پورا کر دیا ۔ گلاسگو میں قیام کے باقی دن ہنستے کھیلتے گزر گئے۔ان دنوں ٹیلیفون ڈائریکٹ نہ تھے اور باہمی رابطے کا ذریعہ خطوط ہی تھے ۔ماموں حاجی یوسف کو عبداللہ کے مل جانے کی خبر خط کے ذریعے ملی جس کے بعدہر دوسرے روز ماموں حاجی یوسف کا خط آتا تھا ، انہوں نے ایک خط میں لکھاتھا کہ میں قیامت کے دن اللہ تعالی سے یہ کہوں گا کہ یا اللہ !میرے بھانجے اسلم کو بخش دے کیونکہ اس نے میرا دل خوش کر دیا ہے ۔یہ پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔عبداللہ بعد میں لندن سے گلاسگو منتقل ہو گیا ، محمد انور بھی ہالینڈ سے گلاسگو پہنچا ، دو ہفتوں کے بعد ہم تینوں پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے پاکستان پہنچے تو ماموں حاجی یوسف اور ماموں زاد بہنیں عبداللہ کو دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوئیں اور ان کی آنکھیں خوشی سے نمناک تھیں۔ اس کے بعد عبداللہ نے ہمارے شہرگلاسگو میں مستقل رہائش اختیار کی۔
۔۔۔۔ (جاری ہے )۔۔۔۔