انہیں برطانیہ پہنچنے کا جنون تھا
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 14)
تحریر: محمد اسلم
عرب ہزاروں سالوں سے غلاموں کی تجارت کرتے چلے آرہے تھے جبکہ یورپ میں پرتگال پہلا ملک تھا جس نے اپنے لوگوں کے لیے 1441 میں پہلی مرتبہ ایک ہزار غلام خریدے ، اسطرح یورپ میں غلام خریدنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ پرتگال والے سالانہ کم و بیش ایک ہزار غلام خریدتے تھے ۔۔پرتگالی لوگ جہاز رانی میں بہت ماہر تھے ان کو مغربی افریقہ اور امریکہ آمدورفت کے راستے معلوم تھے۔ انہوں نے 1526 میں پہلی مرتبہ مغربی افریقہ سے غلام خرید کر بحری جہازوں کے ذریعے برازیل روانہ کیے اور بعد میں دوسرے یورپی ممالک بھی غلاموں کی تجارت میں شریک ہو گئے۔ ایک اور ذرائع کے مطابق برطانیہ میں پہلا کالا غلام 1555 میں ایک امیر انگریز نے خریدا۔ صرف برطانیہ نے 1662 سے 1807 تک تقریبا ڈیڑھ سو برسوں کے درمیان بحری جہازوں کے ذریعے 34 لاکھ افریقی کالے غلام شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں فروخت کیے۔ اس زمانے میں برطانیہ کا آدھی دنیا پر راج تھا اور اس کا حکم چلتا تھا۔ 1830 میں برطانوی پارلیمنٹ نے غلاموں کی تجارت پر پابندی لگا دی اور اپنے مقبوضہ علاقوں میں تمام غلاموں کو آزاد کر دیا۔ یہ لوگ اپنے گورے مالکوں سے آزاد ہو کر ذاتی کام کرنے لگے جس کے نتیجے میں ان ممالک میں گورے زمینداروں اور جاگیرداروں کے کام رک گئے اور انہیں روز مرہ امور چلانے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ان حالات میں حکومت برطانیہ کے مشورے پر ہندوستان سے کنٹریکٹ پر قانونی طریقے سے مزدوروں کی آمد کا سلسلہ 1838 میں شروع ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ 1838 سے 1917 کے درمیان پانچ سو بحری جہازوں پر دو لاکھ چالیس ہزار ہندوستانی جنوبی امریکہ کے ممالک” برٹش گیانا” اور نزدیکی جزائر میں مزدوری اور ملازمت کے لیے گئے، ان میں 90 فیصد ہندو تھے۔ ان لوگوں کا تعلق صوبہ بہار ،لکھنو کے ارد گرد کے علاقوں ، راجستھان اور مغربی بنگال سے ملحق ضلع جھاڑکھنڈ سے تھا۔ اس طرح کالے افریقی غلاموں کی جگہ ہندوستانی لوگ کھیتوں، دکانوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے لگے اور ہندوستانی لوگوں کو بیرون ملک جانے کا ”چسکا” لگ گیا ۔ اسی عرصہ میں1830 کے بعد ہندوستان سے بہت بڑی تعداد میں لوگ جنوبی افریقہ اور فجی جیسے ممالک میں بھی گئے۔ 1914 میں شروع ہونے والی جنگ عظیم اول میں برطانیہ نے ہندوستان سے فوج میں 15 لاکھ فوجی بھرتی کیے اور ان میں سے 10لاکھ فوجی مشرق وسطی، افریقہ اور یورپ کے مختلف محاذوں پر بھیجے ۔ ان حالات میں ہندوستان کے کھیتوں میں کام کرنے والے عام نوجوان کھیتی باڑی سے اکتانے لگے اور انہوں نے بھی بیرون ملک جانے یا پھر فوج میں بھرتی ہونے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک جانے کے لیے بے تاب رہنے لگی۔
ضلع لدھیانہ کی تحصیل جگراؤںشہر سے آٹھ میل دور ”مدار پور” گاؤں کے عطا محمد اشرف بھی انہی بے چین نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ 1903 میں ارائیں برادری کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ نوجوان ہر صورت میں برطانیہ جانا چاہتا تھا۔ عطا محمد اشرف زمیندارہ کے کام سے تنگ آچکے تھے۔ انہوں نے پرائمری کی پانچ جماعتیں پڑھی تھیں۔ 1925 میں 22 سال کی عمر میں انہوں نے اپنا پاسپورٹ بنوایا اور کراچی جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے کارگو بحری جہاز میں بطور ملاح ملازمت کر لی۔ ان کا بحری جہاز میں مستقل کام کرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔وہ تو بس کسی نہ کسی طریقے سے برطانیہ پہنچنا چاہتے تھے۔ قسمت نے ساتھ دیا اور 1926 میں ان کا بحری جہاز سامان لے کر لندن روانہ ہو گیا۔ ان کا جہاز لندن کے نزدیک TILLBURY DOCKS میں لنگر انداز ہوا اورعطا محمد اشرف لندن بندر گاہ سے باہر نکلے۔ وہ پکے نمازی تھے۔ انہوں نے چار پانچ دوستوں کو ساتھ لیا اور نماز پڑھنے کے لیے لندن کی ایک مسجد میں چلے گئے ۔وہاں پر ہندوستانی مام مسجد نے ان کی حالت زار دیکھی اور ”بپتا”سنی تو ازراہ ہمدردی ان کو لندن سے کھسک کر گلاسگو جانے کا مشورہ دیا۔ عطا محمد اشرف اور ان کے دوستوں کے پاس زیادہ پیسے تھے نہ انہیں راستہ معلوم تھا ۔ یہ لوگ ایک بس پر بیٹھ کر پہلے کاؤنٹری شہرپہنچے پھر وہاں سے” لیڈز ”کا رخ کیا اور پھر تیسری بس پر مانچسٹر پہنچے، اسی طرح وہاں سے ہوتے ہوئے چند دنوں میں گلا سگو شہر پہنچ گئے۔
عطا محمد اشرف 1926 میں گلا سگو شہر پہنچے تو اس وقت وہاں 10 یا پھر زیادہ سے زیادہ 15 ہندوستانی مسلمان رہتے تھے۔ ان میں زیادہ تر” ڈور ٹو ڈور” جا کر سامان بیچنے کا کام کرتے تھے ۔( آج گلاسگو میں پاکستانیوں کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ ہے) ضلع لدھیانہ اور جالندھر سے گلا سگوجانے والوں نے پیڈلر کے طور پر کام کیا اور سخت سرد موسم میں مضافاتی علاقوں میں گھر گھر جا کرسامان فروخت کیا ۔
عطا محمد اشرف کے گلاسگو پہنچنے سے پہلے 1910کے عشرے میں عرب ممالک سے دو چار مسلمان بطور ملاح گلاسگو پہنچے ۔ ملاحوں کو گلا سگو کی بندرگاہ پر اترنے کی اجازت تھی، میں سے چند ایک نے گلاسگو میں مستقل رہائش اختیار کی۔ ایک عرب مسلمان نے مقامی عورت سے شادی بھی کی تھی۔ ان عربوں میں سے ایک یا دو کی قبریں اب بھی وہاں موجود ہیں۔ پھر 1920 کے عشرے میں غیر منقسم ہندوستان سے کچھ لوگ گلاسگو آئے جن میں عطا محمد اشرف بھی شامل تھے عطا محمد اشرف تو اب وفات پا چکے ہیں۔ ان کے 94سالہ بیٹے اسماعیل اشرف حیات ہیں ۔اسماعیل اشرف گلاسگو کی ہر دل عزیز پاکستانی شخصیت فتح محمد شرف کے کزن ہیں ۔فتح محمد شرف کے بیٹے یاسین نے مجھ سے کہا کہ میں (کالم نگار)اسماعیل اشرف سے ضرور ملاقات کروں ۔کہ اسماعیل اشرف 1940 کے عشرے کے آخر میں گلاسگو آئے تھے۔ضعیف العمری کے باوجود ان کی یادداشت کافی حد تک ٹھیک ہے ۔ یاسین کی یہ بات سن کر مجھے حیرت آمیز مسرت ہوئی ۔
میں نے اسماعیل اشرف سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے خود فون اٹھایا ۔میں نے اپنا تعارف کرایا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو وہ بولے کہ آپ جب مرضی ملاقات کے لیے آجائیں۔ انہوں نے مزیدبتایا کہ وہ گلاسگو سے 15 میل دور قصبہ ”ایئر ڈری ”(AIRDRIE)میں رہتے ہیں ۔میں دو جون کو بھائی ادریس کے ساتھ بذریعہ کار گلا سگو سے”ایئر ڈری ”(AIRDRIE) روانہ ہوا۔ گلاسکو سے موٹروے کی طرح کی بہترین سڑک پر سفر کرتے ہوئے ہم نصف گھنٹے میں’ایئر ڈری ”(AIRDRIE) پہنچ گئے۔یہ ایک بڑا قصبہ ہے جس کی آبادی 80ہزار نفوس پر مشتمل ہے اسماعیل اشرف کے بیٹے جاوید نے گھر کا دروازہ کھولا۔ اسماعیل اشرف گرم جوشی سے ہمیں ملے۔درمیانے قد، گول مٹول فربہ جسم ،وہ مجھے اس عمر میں ببھی ماشااللہ صحت مند دکھائی دیئے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 30 جولائی 1929 کو لدھیانہ کے گاؤں ”مدار پور ”میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پرائمری کا امتحان ”کیری ”گاؤں سے اور مڈل کا امتحان ”سلیم پور سدھواں ”ے پاس کیا۔ ان کے ایک بھائی ابراہیم اور ایک بہن خورشید بی بی تھی۔ان کے والد عطا محمد اشرف اور دادا عید محمد عیدوکے پاس لدھیانہ میں نصف مربع زرعی اراضی تھی اور وہ زمیندارہ کرتے تھے ۔اسماعیل اشرف نے بتایا کہ ان کے والدعطا محمد اشر ف 1926 کے لگ بھگ بحری جہاز پر کراچی سے برطانیہ آئے۔ اس دور میں برطانیہ جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اسماعیل اشرف نے مزید بتایا کہ قیام پاکستان کے وقت وہ اٹھارہ سال کے تھے ۔ ان کے گاؤں مدار پور پر سکھوں نے کوئی حملہ کیا نہ کوئی مسلمان شہید ہوا ۔ انہوں نے اپنے دادا عید محمد عید و اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ ہجرت کر کے خانیوال شہر میں رہائش اختیار کی جبکہ ان کے والد عطا محمد اشرف اس وقت برطانیہ میں تھے ۔
(جاری ہے ) ۔