اسلم! رہنے دو ، لمبی داستان ہے
تحریر: محمد اسلم
پانچ ہفتے برطانیہ میں قسط نمبر 8
میں گلاسگو میں اپنی دکان پر کھڑا تھا، ریاض سودا سلف لینے آگیا۔ اس سے رسمی تعارف چند ماہ پہلے ہوا تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے بڑا ہونے کے علاوہ خوش اخلاقی میں بھی مجھ سے آگے تھا۔ اس زمانے میں دن کے وقت ہماری دکان پر گورے گاہک کم ہی آتے تھے۔ ریاض نے جب یہ دیکھا کہ میں مصروف نہیں ہوں تو باتیں کرنے لگا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ لاہور سے تعلق رکھتا ہے اور برطانیہ آنے سے پہلے چند سال پاکستان ریلوے میں ملازمت کر چکا ہے۔ پھر وہ اپنے خالہ زادبھائی اشرف کی پیروی کرتے ہوئے 1962 میں برطانیہ آگیا۔ یہاں آکر وہ دوسرے پاکستانیوں کی طرح بس کارپوریشن میں بطور کنڈکٹر کام کرنے لگا اور پھرکچھ عرصہ کے بعد ڈرائیور بن گیا۔ اس تفصیلی ملاقات کے بعد میرے ریاض سے اچھے مراسم بن گئے۔ پھر میں اور ریاض 1976 میں الگ الگ پاکستان آ گئے۔ میں نے فیصل آباد میں سرکلر روڈ پر” گفٹوسپر سٹور ”کے نام سے دکان خریدی تو ریاض ہمارا پارٹنر بن گیا۔ اس زمانے میں ہماری دکان کا شمار بڑے ڈیپاٹمنٹل سٹورز میں ہوتا تھا۔ فیصل آباد میں ہماری دکان کے علاوہ ”النور سٹور ” ، ”کوثر ڈیپارٹمنٹل سٹور” اور ”الممتاز ”مشہور تھیں، ان دکانوں کی وجہ شہرت غیر ملکی سامان تھا ۔قارئین کو اب یہ بات شاید عجیب لگے کہ آج سے سینتالیس برس قبل فیصل آباد کے علاوہ سرگودھا ‘ چنیوٹ ‘ لالیاں ‘ جھنگ ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سمندری سے لوگ بچوں کے غیر ملکی ملبوسات ‘ نوزائیدہ بچوں کے فیڈرز، فیڈرز کے نیپل ‘امپیریل لیدر سوپ ‘ ٹائلٹ پیپر وغیرہ خریدنے فیصل آباد کے ان سٹورز پر آیا کرتے تھے۔
ریاض احمد کے ساتھ میری شراکت چھ سال چلی۔ پھر ریاض بمع اہل و عیال واپس برطانیہ چلا گیا اور وہاں پر مختلف دکانوں پر بطور سیلز مین کام کرتا رہا۔ اس مرتبہ جب میں اپنے بھائی محمد ادریس کے ہمرا ہ ا سے ملنے گیا تو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ریاض کی کمر خم ہو چکی تھی اور وہ بہت مشکل سے چل پا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ کچھ عرصے سے اس مصیبت میں گرفتار ہے اور گھر پر ہی مقید ہے اس نے اپنی اہلیہ کے بارے میں بتایا کہ وہ بھی شدید علیل ہے۔
ریاض کی ساری زندگی ہمارے سامنے گزری۔ ایک زمانے میں وہ بہت متحرک انسان تھا۔ اب اس کو دیار غیر میں اس حالت میں دیکھ کر دل بہت خراب ہوا۔ وطن سے ہزاروں میل دور روزی کمانے کے لیے آنے والے پاکستانی واپس جانے کی پوزیشن میں نہیں۔ میں نے اپنی کتاب ”گلاسگو کے اولین پاکستانی ” کے سلسلے میں ریاض سے سوالات کیے، وہ کہنے لگا اسلم! رہنے دو ، لمبی داستان ہے۔ کیا سہانے خواب لے کر یہاں آئے تھے اور اب زندگی کے آخری سانس پورے کر رہے ہیں ۔ ریاض کے لہجے میں شدید کرب تھا ، اس کی حالت مجھ سے دیکھی نہ گئی اور میں بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔
آنکھوں میں اچھے خواب لے کر برطانیہ جانے والوں میں مولوی غلام محمد بھی شامل تھے۔ وہ چیچہ وطنی میں ایک سکول میں ٹیچر تھے۔ اپنے ایک پیر بھائی کے کہنے پر وہ 1956 میں والدین اور بچوں کو خدا حافظ کہہ کر گلاسگوپہنچے اور دیگر پاکستانیوں کی طرح ایک چھوٹے سے سوٹ کیس میں سامان رکھ کر شہر کے مضافاتی علاقوں میں مال فروخت کرنے لگے۔ پھر کسی نے ان سے کہا کہ وہ گلاسگو سے 100 میل دور فورٹ ولیم (FORT WILLIAM)کے قصبے میں چلے جائیں کیونکہ وہاں پیڈلر کے کام میں زیادہ آمدن ہے۔ مولوی غلام محمد 10 سال فورٹ ولیم میں ڈور ٹو ڈور کام کرتے رہے۔1960کے عشرے میں فورٹ ولیم کی آبادی صرف تین ہزار کے قریب تھی اور وہاں پاکستانی گھرانے صرف تین تھے ۔ اس قصبے کے پاس برطانیہ کا سب سے بڑا پہاڑ BEN NAVIS ہے جس کی بلندی چار ہزار فٹ ہے۔مولوی غلام محمد نے فورٹ ولیم میں قیام کے دوران ہی پاکستان سے اپنے بچوں کو بھی وہاں بلوالیا تھا۔ مولوی غلام محمد 1970 میں گلاسگو واپس آگئے اور گلاسگو کے محلے ”گوون” میں ہمارے پڑوسی بن گئے ۔ اس دوران انہوں نے اپنے بچوں کو پاکستان سے بلوا لیا ۔ وہ انتہائی نیک آدمی تھے ۔غلام محمد کو مولوی کہا جاتا تھا لیکن وہ مولوی نہیں بلکہ صوفی منش اور” اللہ لوگ ”آدمی تھے۔ وہ عاشق رسول تھے اور ان کا عشق اتنا سچا تھا کہ رسول اکرم ۖ کا نام آتے ہی ان کی آنکھیں بھر آتی تھیں۔ مولوی غلام محمد اکثر ایک کمرے میں بند ہو کر لمبی لمبی تسبیحات کرتے ۔ ان کے گھر والے اور دوسرے کئی لوگ مذاق اڑاتے کہ کام سے بچنے کے لیے وہ ایسا کرتے ہیں مگر مذاق اڑانے والے غلط تھے ۔ وہ ”اللہ لوگ” تھے۔ ہم نے مولوی غلام محمد کی کئی کرامتیں خود دیکھیں۔ اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل تندرستی کی حالت میں انہوں نے اپنی قبر کی جگہ کی بھی نشاندہی کر دی تھی اور بعد میں ان کی آخری آرام گاہ وہیں بنی۔ اسی طرح جب مولوی غلام محمد کا آخری وقت آیا تو وہ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ میرے سینے پر کئی گھنٹے سے خارش ہو رہی ہے، انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ انہیں زبردست ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور چند گھنٹوں کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ گویا اللہ کے ولی کو شدید ہارٹ اٹیک کی تکلیف ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے سینے پر معمولی خارش ہو رہی ہو۔ اس کے علاوہ بھی ان سے کئی کرامتیں ظاہر ہوئیں، کالم کی جگہ محدود ہے ورنہ میں تفصیلاً لکھتا۔ مولوی غلام محمد کا انتقال 1983میں ہوا۔ میں انکے 74سالہ بیٹے مقبول چوہدری سے ملاقات کے دوران ان کے گھرانے سے متعلق قیمتی معلومات حاصل کرتا رہا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ جب اپنے والد مرحوم کا ذکر کرتے تو ان کی انکھوں میں ایک نرالی چمک آجاتی تھی۔ مجھ سے باتیں کرتے ہوئے مقبول چوہدری نے کہا کہ ہم گھر والوں نے اپنے والد کو نہیں پہچانا ۔
(جاری ہے)