لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 7)
تحریر: محمد اسلم
حضرت انسان آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے اچھے روزگار اور اچھی رہائش کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جابستا ہے، وقتی طور پر اسے اچھا روزگار اور اچھا ماحول مل جاتا ہے اور وہ خوش رہنے لگتا ہے مگر بیس تیس برس گزرنے کے بعد صورت حال وہی ہوتی ہے جس کے بارے میں شاعر نے اشارہ کیا ہے :
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
اچھی سہولیات زندگی حاصل کرنے کی جد و جہد کے دوران دیار غیر میں اس کی دو نسلیں پروان چڑھ جاتی ہیں جن کے رہن سہن اور بول چال پر مقامی چھاپ لگ جاتی ہے ،اب ظاہری طور پر یہ لوگ تو پاکستانی ہیں مگر انکی سوچ اور عقل پاکستانی نہیں رہی ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 24 کروڑ آبادی میں سے ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد باہر کے ممالک میں رہتے ہیں۔ جو لوگ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں رہتے ہیں انکے بگڑنے کے چانسز کم ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں کی اولادیں پاکستان میں والد کے بغیر رہ کر بگڑ جاتی ہیں ، دوسری طرف جو لوگ یورپ امریکہ وغیرہ میں رہتے ہیں ان کی داستان مختلف ہے۔ 2022 کی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں 15 لاکھ ، امریکہ میں 6 لاکھ اور کینیڈا میں 3 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں ۔ پاکستانی تارکین وطن برطانیہ کی کل آبادی کا تین فیصد ہیں ۔میں نے اس”ٹور ”میں محسوس کیا کہ شاید ا کا دکا پاکستانیوں کے علاوہ کوئی پاکستانی بھی وطن واپس منتقل نہیں ہونا چاہتا ۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک برطانیہ کی سہولتیں اور دوسری یہ کہ پاکستانیوں کی دوسری اورتیسری نسل نے اپنے بڑوں کے پاؤں جکڑ لیے ہیں۔
ان 15 لاکھ پاکستانیوں میں ہمارے (کالم نگار کے) ننھیال اور ددھیال کے تقریبا 200 افراد جن میں بچے اور ادھیڑ عمر لوگ بھی شامل ہیں، وہ بھی برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ میرے چاروں بھائیوں اور ایک ہمشیرہ ،میرے چار ماموؤں کی اور خالاؤں کی اولادیں برطانیہ میں بستی ہیں۔ ان سب میں سے الحمد للہ میں ہی اکیلا انگلینڈ سے پاکستان آ کر سیٹل ہوا اور1976میں پاکستان واپس آگیا ۔ یہ مجھ پر اللہ کی مہربانی کے علاوہ نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں اور میرے ماموں حاجی محمد یوسف کے صحبت کا اثر تھا جس نے مجھے برطانیہ میں ٹکنے نہ دیا، بقول علامہ اقبال:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف
میرے سگے ماموں حاجی محمد یوسف عام انسان نہ تھے۔ اللہ پاک نے ان کو دانش و حکمت کی دولت فراواں عطا کی تھی۔ ان کو مولانا اشرف علی تھانوی اور قائد اعظم سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ وہ اٹھتے بیٹھتے انکے فرمودات سناتے۔ وہ انتہائی نکتہ دان اور ذہین شخص تھے۔ بڑے بڑے صاحبان علم لوگ ان سے ملاقات کے بعد ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ ہم نے اپنے لڑکپن میں ان سے دو قومی نظر یہ،عرب نیشنلزم اور تیسری دنیا کا فلسفہ سمجھا ماموں حاجی یوسف پنڈت نہرو اور جمال عبدالناصر کے بارے میں اکثرگفتگو کیا کرتے تھے اور ہمیں، عرب نیشنلزم اور جمال عبدالناصر کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے ۔وہ کہتے تھے کہ جمال عبدالناصر نے 1960 کے عشرے میں عرب نیشنلزم کا جو فلسفہ دیا وہ امت کیلئے زہر ہے، یہ فلسفہ عرب قومیت کے نام پر امت مسلمہ کا بٹوارا کرتا ہے۔ اس دور میں جمال عبدالناصر کا طوطی بولتا تھا، پاکستان میں بائیں بازو کے لوگوں کی اکثریت جمال عبدالناصر کو اپنا لیڈر تسلیم کرتی تھی اور نوجوان نسل کا میلان اس کی طرف تھا لیکن ماموں حاجی محمد یوسف کا نقطہ نظر بہت واضح تھا ۔ اسی زمانے میں یوگو سلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو ، ہندوستان کے پنڈت نہرو ، مصر کے جمال عبدالناصر اور انڈونیشیا کے سوئیکارنو نے مغرب کے خلاف تھرڈ ورلڈ کے نام سے بھی ایک بلاک بنایا۔ ماموں حاجی محمد یوسف کا کہنا تھا کہ بظاہر تو یہ پیشرفت ٹھیک لگتی ہے لیکن اسکے پیچھے کمیونسٹ روس کا ہاتھ ہے۔ ماموں حاجی یوسف کہا کرتے تھے کہ اس بلاک کے بننے سے ہندوستان فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس ماحول کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو اپنا الگ بلاک بنانا چاہیے جس کی قیادت سعودی عرب کے شاہ فیصل کر سکتے ہیں۔ پنڈت جوہر لال نہرو نے بہت چالاکی سے جمال عبدالناصر اور سوئیکارنو کو پاکستان کے خلاف کر دیا ہے۔ ماموں حاجی محمد یوسف قائد اعظم محمد علی جناح کے بہت معترف تھے اور انہیں اپنا پیر و مرشد تسلیم کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ خدا نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ہمارے لیے بھیجا اور انہوں نے قانونی جنگ لڑ کر ہمارے لیے وطن پاکستان حاصل کیا۔ ماموں یوسف ہمیں دو قومی نظریہ کے بارے میں بتاتے رہتے تھے۔ ہم اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھے۔ ذہن میں کچھ باتیں بیٹھتی تھیں اور کچھ باتوں کی بالکل سمجھ نہیں آتی تھی ۔ماموں حاجی محمد یوسف کہتے تھے کہ ہم ہندو وںسے مسلمان ہوئے مگر اب ہندو اور مسلمان الگ الگ قوم ہیں ۔وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی مثال دیتے کہ جب انگریز صحافی نے ان سے سوال کیا کہ پڑھے لکھے آدمی ہونے کے باوجود کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں تو قائد اعظم نے جواب دیا کہ بالکل، اور اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ جو ہندووں کا خدا ہے وہ ہماری خوراک ہے۔ قائداعظم نے اس جملے میں گائے کی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ ہندہ گائے کو ”ماتا” مانتے ہیں اور مسلمان اس کا گوشت کھاتے ہیں۔
ماموں حاجی محمد یوسف1915 میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور میٹرک کے بعد 1937میں افریقہ کے ملک کینیا چلے گئے۔ 1960میں وہ ریٹائر ہوئے اور پاکستان آگئے۔ پاکستان آنے سے پہلے ان کوکینیا میں دیگر ایشیائی لوگوں کی طرح برطانوی شہریت کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے برطانوی شہریت اور پاسپورٹ لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ صرف پاکستانی شہریت رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو برطانیہ جانے کی اجازت نہیں دی۔ انکے بڑے بیٹے عبداللہ کی پیدائش 1942 میں کینیا کے شہر نیروبی کی ہے ۔ اس نے1964میں لاہور جا کر برٹش پاسپورٹ بنوایا اور ٹکٹ کے پیسے ادھار پکڑ کر چوری چھپے 1965 میں برطانیہ چلا گیا۔ حاجی محمد یوسف کو اس بات کا سخت رنج ہوا کہ وہ جس فلسفے کو لے کر ساری زندگی چلے ان کے بیٹے نے اس کو پامال کر دیاتھا ۔حاجی محمدیوسف کو جس بات کا ڈر تھا ،عبداللہ نے وہی کیا ، اس نے پچھلے 55 برس اپنی مرضی سے برطانیہ میں کاٹے اورایک انگریز خاتون سے شادی کی اور خاندان سے وہ تعلق نہ رکھا ، جو رکھنا چاہیے تھا ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ماموں حاجی محمد یوسف نے ہمیں جو اسباق سکھائے ہیں ایک عام مسلمان کے لیے بہترین ہتھیار ہیں۔ ماموں حاجی یوسف کا انتقال اکتوبر 1991 میں ہوا اور میں ایک بہترین استاد سے محروم ہو گیا۔ میں آج بھی دوستوں کے حلقے میں ان کی باتیں کرتا ہوں ۔انہوں نے ہمیں زندگی گزارنے کے سنہری اصول سکھائے اور بتایا کہ کیسے اٹھنا بیٹھنا، کھانا پیناہے، کیسے رہنا ہے، بات چیت کیسے کرنی ہے اور بحث میں الجھے بغیر اپنی بات کیسے کرنی ہے ۔
ماموں حاجی محمد یوسف دو بیٹوں اور چھ بیٹیوں کے باپ تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تمام اولاد ایک ایک کر کے برطانیہ چلی گئی۔ انہوں نے حاجی محمد یوسف کے طور طریقے کتنے اپنائے، یہ بات مجھے نہیں کرنی چاہیے ۔ ان کی بڑی سے چھوٹی بیٹی سکینہ (بہن) اپنے والد کی وفات کے بعدلاہور سے گلا سگو منتقل ہو گئیں۔ وہ ماشااللہ 85 سال کی ہیں ۔میں اور بڑے بھائی محمد ادریس ان سے ملنے ان کے گھر پہنچے ۔بہن سکینہ بہت پرتپاک طریقے سے ملیں۔ وہ اس وقت ہمارے ننھیال اور ددھیال میں عمر میں سب سے بڑی ہیں۔ میری ان سے کئی سالوں بعد ملاقات ہو رہی تھی وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں،تم تو بہت مصروف رہتے ہو، کتابیں لکھتے جا رہے ہو، تم میرے ابا جان حاجی محمدیوسف کے نقش قدم پر چل رہے ہو۔ ہم ایک گھنٹے کیلئے گئے تھے مگر چار گھنٹے بیٹھے رہے۔ انہوں نے ہمیں پرتکلف کھانا بھی کھلایا۔ اس عمر میں بھی وہ بہت فریش اور متحرک نظر آئیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی اور ہماری بھانجی بھی وہیں تھی۔ وہ چھ ماہ کے ویزے پر پاکستان سے برطانیہ آئی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ انکل مجھے واپس پاکستان پہنچا دو مجھے پاکستان پسند ہے۔ کاش میری بھانجی کی یہ بات ہمارے ہر پاکستانی کی آواز ہو (جاری ہے )