مسائل اور بھی ہیں مگر تاریخ محفوظ کرنا بھی ضروری ہے
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 6)
تحریر: محمد اسلم
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں اتنے مسائل ہیں کہ ان کی موجودگی میں کون تاریخ کو”محفوظ ” کرنے کے چکر میں پڑے لیکن میری سوچ ان سے مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر روز کے مسائل سے نمٹنا تو لازمی ہے ہی لیکن” تاریخ ” کا ریکارڈ رکھنا بھی ضروری ہے۔”تاریخ” سے میری مراد آپ کے اپنے خاندان اور برادری کے پرانے واقعات اور جہاں آپ مقیم ہیں’ وہاں کی بزرگ اور پرانی شخصیات کے اہم واقعات کا ریکارڈ ”محفوظ ”رکھنا ہے ۔ مجھے جب بھی مواقع ملتے ہیں، میں پوچھ گچھ میں لگ جاتا ہوں اور چیزیں نوٹ کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ اس بار مئی 2023میں برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا تو برطانیہ میں آئے پرانے لوگوں سے ملاقاتیں شروع کر دیں ۔مجھے یاد ہے کہ جب میں 1967میں 18سال کی عمر میں پہلی مرتبہ برطانیہ گیا تو وہ برطانیہ آج سے بہت مختلف تھا۔ وہ برطانیہ بہت سادہ اور کم ترقی یافتہ تھا ۔شہر کی سڑکوں پراس زمانے میں بہت کم کاریں ہوا کرتی تھیں۔ زیادہ تر لوگ بسوں اور ٹرینوں پر سفر کرتے تھے۔ عام گورے بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ۔میں جس شہر میں رہتا تھا وہاں پر ہزاروں پرائمری یا مڈل پاس گورے جہاز رانی کی صنعت میں بطور مزدور کام کرتے تھے۔گلاسگو شہر میں لوگ تین منزلہ فلیٹوں والے مکانوں میں رہتے تھے۔ اکثر گھروں میں علیحدہ واش روم نہیں ہوتا تھا بلکہ سارے فلیٹ کے مکینوں کے مشترکہ باتھ روم فلیٹ کے پچھلی جانب بنے ہوتے تھے۔شام کو مرد حضرات شراب خانوں کا رخ کرتے تھے جبکہ عورتیں جوا خانوں (bingo)میں جاتی تھیں۔
1960 کے عشرے میں برطانیہ میں عام آدمی کی ماہانہ تنخواہ 40 پونڈ کے لگ بھگ ہوتی تھی۔ ایک پونڈ پاکستانی 10 روپے کا تھا اس حساب سے ماہانہ تنخواہ 400 روپے بنتی تھی جبکہ اس دور میں پاکستان میں ماہانہ تنخواہ 100سے 130 روپے کے لگ بھگ تھی اس طرح برطانیہ میں کام کرنے والے پاکستان سے تین گنا زیادہ کمائی کر لیتے تھے۔ جو پاکستانی بھی برطانیہ جاتا وہ یہ پروگرام لے کر جاتا کہ چند” چلھپڑے ”(پونڈ) کما کر چار پانچ سال بعد واپس پاکستان چلے جانا ہے مگر زمانہ قیامت کی چال چل گیا ۔
وہ پاکستانی جو 1940 اور 1950 کے عشرے میں برطانیہ آئے تھے ان میں سے اب چند لوگ ہی حیات ہیں۔ باقی پاکستانی وطن جانے کی تمنا دل میں لیے بہشت کو سدھار گئے اور اکثر نے برطانیہ کے مقامی قبرستانوں کو اپنی آرام گاہ بنا لیا۔ میں جب پچھلی مرتبہ 2013 میں برطانیہ کے شہر گلاسگو گیا تو 30 سے زائد ایسے پاکستانیوں کے انٹرویو کیے جو روزگار کے سلسلے میں 1940 اور 1950 کے عشروں میں برطانیہ آئے تھے۔ اب میرا 10 برس بعد برطانیہ جانا ہوا تو میں نے سوچا کہ 1960 کے عشرے میں برطانیہ آنے والوں سے مل لیتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ جب وہ برطانیہ آئے تو کیا خیالات لے کر آئے تھے؟ والدین کو چھوڑتے وقت ان کے جذبات کیا تھے؟ اس دور میں برطانیہ کیسا تھا؟ گورے عام پاکستانیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے اور کس طرح پیش آتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔میرے ذہن میں سب سے پہلے ہمارے ایک پرانے ساتھی محمد سلیم بٹ کا خیال آیا ۔محمد سلیم بٹ 1963 میں لاہور سے گلاسگو آئے اور گلاسگوشہر کی بسوں میں بطور کنڈکٹر بھرتی ہو گئے۔ جب میں اور میرے بڑے بھائی 1968 میں گلاسگوپہنچے تو ہمیں بھی یہی کام ملا ۔ درمیانے قد اور گورے قد کے سلیم بٹ انتہائی خوش گفتار اور خوش مزاج آدمی ہیں۔ ان سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے بہت خوش دلی سے گفتگو پرآمادگی کا اظہار کیا۔ وہ گلاسگوکے مضافات میں” NEWTON ” آبادی میں رہتے ہیں۔ یہ نئی آبادی شہر سے نو میل دور ہے ۔ہم گھر سے دوپہر کو نکلے تو پیاری پیاری دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔ہم سلیم بٹ کے خوبصورت گھر میں پہنچے، وہ بہت خوش دلی سے ملے ۔ دس، پندرہ منٹ پرانی باتیں ہوتی رہیں جس کے بعد میں انہیں بتایا کہ میںگلاسگو میں مقیم پرانے پاکستانیوں کے انٹرویوز کر رہا ہوں جو 1960کے عشرے میں یہاں آئے تھے ، پھر میں نے باقاعدہ معلومات نوٹ کرنے کے لیے قلم کاغذ نکالا تو سلیم بٹ کچھ ہچکچائے ۔میں نے دو تین سوال کیے تو وہ سنجیدہ ہو گئے اورکہنے لگے کہ میں آپ کو کوئی ایسی معلومات نہیں دینا چاہتا جوآپ لکھیں اور میںحکومتی اداروں کی نظر میں آجاؤں۔ ان کی یہ بات سن کر میں بہت حیران ہوا ۔سلیم بٹ نے یہ بات بھی کہی کہ پاکستان میں سیاسی حالات خراب ہیں اور پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے، اس وجہ سے میں سامنے نہیں آنا چاہتا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ میرے سوالات کا تعلق سیاست سے نہیں ہے ، ہم ایک زمانے میں اکٹھے رہے ہیں اور مجھے آپ سے ذاتی معلومات درکار ہیں لیکن وہ کسی صورت آمادہ نہ ہوئے، سلیم بٹ کا یہ رد عمل دیکھ کر میں نے اپنا کاغذ سمیٹا اور قلم کو جیب میں ڈالا، کچھ دیرہلکی پھلکی گفتگو ہوئی ، تھوڑی دیر بعد سلیم بٹ کچھ ریلیکس ہو گئے تو میں نے زبانی کم و بیش وہی سوالات کیے جن کے جوابات میں تحریری صورت میں حاصل کرنا چاہتا تھا ،سلیم بٹ نے زبانی طور پر مجھے وہ سب کچھ بتا دیا ۔
میرے سوالات کے جواب میں سلیم بٹ نے بتایا کہ وہ 1942 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ان کے بڑے بھائی محمد اکرم بٹ 1961 میں برطانیہ چلے گئے تو ان کے دل میں بھی خیال آیا کہ برطانیہ جانا چاہیے ۔ 1962 میں ویزے کی پابندی لگ چکی تھی ،بڑے بھائی نے برطانیہ سے ورک پرمٹ بھیجا تو وہ اکتوبر 1963 میں بذریعہ پی آئی اے لاہور سے گلاسگو آگئے۔ان دنوں گلاسگو میں پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 50 کے لگ بھگ تھی۔ شہر میں پاکستانیوں کی پانچ چھ دکانیں تھیں اور ایک مسجد تھی جو دوسری منزل میں ایک مکان میں بنائی گئی تھی ۔(اب گلاسگومیں مسلمانوں کی تعداد دس ہزا تک پہنچ چکی ہے )
محمد سلیم بٹ کے بھائی محمد اکرم بسوں میں کام کرتے تھے ،سلیم بٹ نے بھی ان کی طرح بسوں میں کام کرنا شروع کر دیا ۔پھر وہی ہوا جو بیرون ملک جانے والے افراد کے ساتھ پیش آتا ہے، 1967 میں ان کے والد کا پاکستان میں انتقال ہو گیا، سلیم بٹ پردیس میں تھے اس لیے ان کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے دل میں آج بھی یہ دکھ اور کسک ہے کہ وہ آخری وقت میں اپنے والد کے پاس نہیں تھے ، میں نے کہا کہ پردیس میں رہنے والوں کو یہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔میں نے پوچھا کہ 1963 میں جب آپ گلاسگو آئے تو مقامی لوگوں کا آپ کے ساتھ رویہ کیا تھا؟سلیم بٹ نے جواب دیا کہ گورے لوگ ہمیں برے برے ناموں سے پکارتے تھے۔ پہلے ہمیں” ڈارکی”( DARKI) یعنی کالے کہتے تھے۔پھر 1970 کے عشرے میں یہ لوگ ہمیں پاکی( PAKI)کہنے لگے مگر اب قانوناً ایسا کہنا جرم ہے ۔ محمد سلیم بٹ نے بتایا کہ 1964 میں صدر ایوب خان نے برطانیہ کا دورہ کیا تو وہ ان چند افراد میں شامل تھے جو صدر پاکستان کا استقبال کرنے کے لیے گلاسگو سے 50 میل کا سفر کر کے ایڈ نبرا ریلوے اسٹیشن گئے تھے۔ اس دور میں پاکستان کو عالمی برادری میں باعزت مقام حاصل تھا اور صدر پاکستان ایوب خان کی یہ اہمیت تھی کہ برطانوی ملکہ الز بتھ لندن سے ٹرین پر ان کے ساتھ ایڈ نبرا آئی تھیں۔ایڈنبرا ریلوے سٹیشن پر ریڈ کارپٹ بچھا کر صدر ایوب کا استقبال کیا گیا تھا ۔سلیم بٹ نے بتایا کہ گلاسگومیں اس وقت پاکستانیوں کی تعداد بہت کم تھی اس لیے پاکستانی سوسائٹی نے آٹھ دس افراد کو ایڈ نبر الے جانے کا پروگرام بنایا تھا ، ان سب کے ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈیاں تھیں۔ سلیم بٹ کا کہنا تھا کہ وہ عزت ہم پاکستانیوں کو دوبارہ نہیں ملی ۔محمد سلیم بٹ گزشتہ10 سال سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں اور تینوں الگ الگ مکانات میں مگر ایک دوسرے کے قریب ہی رہتے ہیں ۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ نے محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے برطانیہ آ کر غلطی کی تھی ۔سلیم بٹ نے جواب دیا کہ بڑھاپے میں آکر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں نے بالکل درست فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہاں ہر وقت ڈاکٹر دستیاب ہے اور علاج کی سہولت بھی بلا معاوضہ ملتی ہے،ضرورت پڑنے پر نرسیںمریض کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں بھی آجاتی ہیں۔ میں نے مزید سوال کیا کہ آپ نے کبھی پاکستان واپس جانے کا سوچاہے تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں، میرے بچے یہاں ہیں۔ میں پاکستان میں کس کے پاس جاؤں گا۔ میری اہلیہ اور بھائیوں کا انتقال گلاسگو میں ہوا ہے اور ان کی آخری آرام گاہیںیہیں بن گئی ہیں اس لیے اب باقی زندگی یہیں گزارنے کا ارادہ ہے ۔ میں یہ سوچ کر اٹھا کہ کاش اتنی سہولتیں پاکستان میں بھی ہوتیں کہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر باہر رہنے کو ترجیح نہ دیتے۔ (جاری ہے )