سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر 3 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔
آج سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ دلائل کا آغاز پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے کروں گا، سپریم کورٹ کے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق متعدد فیصلے ہیں، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں نظرثانی کے لیے الگ دائرہ کار رکھا گیا ہے، نظرثانی اپیل کے حق سے کچھ لوگوں کے ساتھ استحصال ہونے کا تاثر درست نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب آہستہ آہستہ دلائل سے ہمیں سمجھائیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کے حق سے پہلے آئین لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے، ایک آئینی معاملے کے لیے پورے آئین کو کیسے نظر انداز کریں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایکٹ سے پہلے 184/3 میں نظرثانی کا کوئی طریقہ نہیں تھا، حکومتی قانون سازی سے کسی کے ساتھ استحصال نہیں ہوا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت قانون سازی کرسکتی ہے مگر نظرثانی میں اپیل کا حق دینا درست نہیں لگ رہا، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے، بھارت میں بھی آرٹیکل 184/3 کےمقدمات میں براہ راست نظرثانی اپیل کا حق نہیں۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان کا کہنا تھا کہ آئین نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں کرتا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا نظرثانی کے اختیار کو سول قوانین سے مماثلت دی جاسکتی ہے؟ کیا سول قوانین صوبائی دائرہ اختیار میں ہیں؟ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ میں صوبائی قوانین کا ذکر نہیں، اگر یہ قانون صوبائی سطح پر اپلائی ہوگا تو کیا ہائی کورٹس سپریم کورٹ کا طریقہ کار طے کریں گی؟ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی شق 2 پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات پر سب اتفاق کرتے ہیں کہ مقننہ نظرثانی کا دائرہ اختیار بڑھاسکتی ہے، حکومت نے نظرثانی کو اپیل میں تبدیل کردیا جس کی ٹھوس وجوہات دینا لازم ہے، قانون سازی سے قبل محتاط طریقہ کار سے حقائق دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کہتا کیا ہے؟ میرے خیال میں سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، کیا نظرثانی میں ایک بار اپیل ہوگی یا کئی بار؟ کیا نظرثانی میں اپیل ہائی کورٹ میں بھی ہوسکےگی یا نہیں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نظرثانی میں تمام قانونی گراؤنڈ لیے جاسکیں گے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ اس ایکٹ کے سیکشن 2 کا مطلب تویہی ہےکہ بس نظرثانی اپیل ہی میں تبدیل ہوگی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پچھلی سماعت پربھی کہا تھا کہ عدالت کا دائرہ اختیار اب وسیع ہوچکا ہے، عدالت نے کئی قانونی اور آئینی معاملات میں اپنا دائرہ اختیار وسیع کیا ہے، نظرثانی والے بینچ میں مرکزی کیس سننے والےججز کو شامل کرنےکا اختیار عدالت پر چھوڑا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ یہ بات تو آپ نے قانون میں لکھ دی کہ نظرثانی سننے والا بینچ مرکزی کیس کے بینچ سے بڑا ہوگا، اگر 3 رکنی بینچ فیصلہ دے تو 4 رکنی بینچ نظرثانی سن سکتا ہے؟
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کا کہنا تھا کہ لارجربینچ کا مطلب لارجربینچ ہے، یہ عدالتی صوابدید ہے کہ نظرثانی کے لیے کتنے ممبرز کا بینچ بنائے، بس وہ مرکزی کیس سے زائد ممبران پر مشتمل ہونا چاہیے۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہےکہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے تحت نظرثانی میں کسی بھی نئے قانونی نکتےکو اٹھایا جاسکےگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ اب نظرثانی اپیل کی شکل اختیار کرے گی اور نئے نکات اٹھائے جاسکیں گے، بھارت میں ایک ہی کیس میں دوسری بار اپیل سننےکی اجازت ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ نے نظرثانی کو اپیل ہی میں کیوں تبدیل کیا؟ اتنی مبہم اور وسیع قانون سازی کیسے کردی گئی؟ مرکزی کیس کے فیصلے پرنظرثانی کے لیےکسی نہ کسی غلطی کی نشاندہی توکرنا ہوگی، قانون سازی ضرور کریں لیکن ابہام نہ چھوڑیں، آپ مفاد عامہ اور نظرثانی کی تعریف کیوں نہیں لے کر آتے؟ اگر آپ عدالت پر چھوڑیں کہ نظرثانی کو کیسے ٹریٹ کرنا ہے تو ہمیں یکساں معیار طے کرنا ہوں گے، سپریم کورٹ کے پاس مکمل انصاف کا اختیاربھی ہے، کوئی ایسا قانون دکھائیں کہ عدالت اس کیس کو مزید آگے بڑھاسکے۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کےخلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ قانون چیلنج کرنے والے قانون سازی سے براہ راست متاثر نہیں تھے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، خارج کی جائیں۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے ویڈیولنک پر جوابی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے جو کیا گیا وہ دوبارہ قانون سے ہوسکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے ہوتا ہے؟ اٹارنی جنرل اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ کے اختیارات میں صرف قانون بنانے سے تبدیلی نہیں کی جاسکتی، سپریم کورٹ کے اختیارات میں تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم لازمی ہے، عدالتی اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں، آرٹیکل187 کے مطابق مکمل انصاف کی فراہمی کے لیے سپریم کورٹ کے پاس وسیع اختیارات ہیں، بھارت میں نظرثانی قانون میں کی گئی تبدیلی ہمارے قانون سے بالکل الگ ہے، نظرثانی میں لارجربینچ بنانے کا مطلب ہے کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے گی۔
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ کیس کی دوبارہ سماعت نظرثانی نہیں ہوسکتی، اپنا تحریری جواب بھی جمع کراؤں گا،
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کرلیے۔
ان کے بعد درخواست گزار غلام محی الدین اور زمان خان وردگ نے بھی علی ظفر کے دلائل اپنالیے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے تمام درخواست گزاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام درخواست گزار اپنے دلائل تحریری طور پر بھی جمع کرادیں، درخواست گزار تحریری جوابات میں ریفرنسز بھی شامل کریں تاکہ مدد مل سکے۔
عدالت نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔