چین اور طالبان نے 25 سالہ اہم اقتصادی معاہدے پر دستخط کردیے

افغانستان میں طالبان کی حکومت اور چین کے درمیان 25 سالہ اہم اقتصادی معاہدے پر دستخط کردیے گئے۔

2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد کسی بھی غیر ملکی کمپنی سے یہ افغانستان کا پہلا معاہدہ ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت اور چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن کی ذیلی کمپنی کے درمیان معاہدے پر دستخط کیے گئے۔

معاہدے کے وقت طالبان حکومت کے ڈپٹی پرائم منسٹر ملا عبدالغنی برادر  اور افغانستان میں چینی سفیر وانگ یو موجود تھے۔

ملا برادر نے اس موقع پر کہا کہ یہ معاہدہ افغانستان کے معاشی استحکام کیلئے اہم کردار ادا کرے گا۔ چینی سفیر نے کہا کہ 25 سالہ معاہدہ افغانستان کو خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

قائم مقام وزیر برائے مائنز اینڈ پیٹرولیم شہاب الدین دلاور نے بتایا کہ معاہدے کے مطابق سنکیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی تیل و گیس کے 5 ذخائر دریافت کرنے کیلئے پہلے سال 15 کروڑ ڈالر جبکہ آئندہ تین برسوں میں 54 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کرے گی۔

معاہدے کے تحت طالبان حکومت کو رائلٹی فیس کی مد میں 15 فیصد آمدنی حاصل ہوگی جبکہ تیل کی پیداوار 200 ٹن سے شروع کی جائے گی اور اسے بتدریج ایک ہزار ٹن تک لے جایا جائے گا۔

چینی کمپنی افغانستان میں ملک کا پہلا کروڈ آئل ریفائنری بھی تعمیر کرے گی تاہم اگر وہ ایک سال کے عرصے میں معاہدے میں درج تمام ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی تو معاہدہ ختم کردیا جائے گا۔

25 سالہ طویل المدتی معاہدہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ چین خطے میں اقتصادی طور پر کتنا زیادہ سرگرم ہے۔

اس حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز کہا تھا کہ افغان حکومت اور چین کی سنکیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی کے درمیان آمو دریا طاس کے قریب تیل کی دریافت کیلئے معاہدہ ہونے والا ہے۔

افغانستان کے چین میں سفیر وانگ یو نے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آمو دریا آئل کنٹریکٹ چین اور افغانستان کے درمیان اہم منصوبہ ہے۔

اس کے علاوہ چین کی ایک اور سرکاری کمپنی افغانستان کے مشرقی علاقے میں تانبے کی کان کا انتظام سنبھالنے کیلئے بھی بات چیت کر رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ افغانستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور یہاں گیس، تانبے اور دیگر معدنیات بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کی مالیت کا تخمینہ 10 کھرب ڈالرز تک لگایا جاتا ہے۔

چین نے اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیاہے لیکن افغانستان میں اس کی دلچسپی بہت زیادہ ہے کیوں کہ یہ اس کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مرکزی علاقہ ہے۔