2022آزمائشوں کا سال ثابت ہوا

تحریر ۔  حاجی اسلم

آج29دسمبر ہے اور سال2022 کا اختتام ہونے میں اب صرف دوروز باقی ہیں ۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس برس میں بھی بہت سے اہم واقعات پیش آئے ،کچھ واقعات مثبت تھے اور کچھ منفی اثرات کے حامل تھے ، سیاست اور معیشت کی کروٹوں نے اہل پاکستان سمیت پوری دنیا کے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ 2022یہ خوشخبری دے کر گیا ہے کہ اس برس دنیا بھر میں کرونا کی وبا پر بہت حد تک قابو پالیاگیا ،لوگوں کو اس وبائی مرض سے محفوظ رکھنے کے لیے عالمی سطح پر ویکسی نیشن کی مختلف کامیاب مہمات چلائی گئیں ۔

اللہ تعالی کے فضل وکرم سے اب اموات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور یورپ ، امریکہ اور آسٹریلیا میں چھائی ہوئی خوف کی فضا کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔گزشتہ دو برسوں میں کرونا اور اس کی تباہ کاریاں عالمی میڈیا کا اہم ترین موضوع رہیں لیکن اب صورت حال مختلف ہے اور ذرائع ابلاغ پر بھی کرونا کاذکر بہت کم ہورہا ہے ۔کرونا اللہ تعالی کی طرف سے سزا تھی یا آزمائش تھی ، بہر حال ، مسلمانوں نے رو رو کر اس سے نجات کی دعائیں کیں ، اللہ تعالی کی ذات رحیم و کریم ہے، اس نے دنیا کو اس وبا سے نجات عطا فرمائی ، کرونا ہمیں یہ سبق دے گیا کہ میڈیکل سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجود انسان قدرت کے سامنے اس قدر بے بس ہے کہ ایک معمولی جرثومے سے دنیا کا ساراکاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ۔ 2020 اور2021 اس وباسے عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں محدود ہو گئی تھیں ، 2022میں دنیا کے مختلف ممالک نے باہمی لین دین کا رکا ہوا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جو خوش آئند ہے ۔

دنیا کو کرونا کی مصیبت سے نجات ملی ہی تھی کہ 24فروری 2022کوروس نے یوکرین پر حملہ کر دیا ۔پاکستانیوں کی اکثریت نے یو کرین کا نام پہلی مرتبہ سنا تھا ، یوکرین پر حملے کے وقت عام لوگوں کا خیال تھا کہ روس کے اس حملے سے انہیں کیا فرق پڑے گا ؟ مگر اس حملے نے پاکستان سمیت عالمی معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا ۔ یوکرین 1990سے پہلے سوویت یونین کا حصہ تھا اور روس کو یہ قطعاً پسند نہیں کہ اس کی سابقہ ریاستیں(جو اب آزاد ممالک ہیں)امریکہ سے تعلقات بڑھائیں ۔یوکرین نے ‘‘نیٹو ’’ کا ممبر بننے کے لیے کوششیں شروع کیں تو روس نے پہلے یوکرین کووارننگ دی اور پھر اس پر حملہ کر دیا ۔روس نے یہ موقف اپنایا کہ امریکہ یوکرین میں نیٹو کے فوجی اڈے قائم کرے گا جو روس کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہیں ۔یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے روس کاسوشل اور معاشی بائیکاٹ کر دیا جس کے ردعمل میں روس نے تیل اور گیس کی سپلائی بند کر دی جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں80ڈالر سے بڑھ کر125ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں ۔پاکستان میں پٹرول کی قیمت اپریل 2022میں 144 روپے تھی جو اگست 2022میں 237روپے لیٹر تک جا پہنچی۔

تیل مہنگا ہونے سے دنیا بھر میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کی معیشت کو نقصان پہنچا ۔پاکستان سمیت امریکہ اور یورپی ممالک میں بجلی اور گیس کی قیمتیں دوگنی ہو گئی ہیں، ان حالات میں مغربی ممالک کے لوگوں میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی خریداری کا رجحان کم ہو گیا ، ان ممالک کے لوگ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک سے گارمنٹس اور کپڑ ا خریدتے تھے، اس رجحان کانتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان جیسے ممالک کی ایکسپورٹ گرنے لگی۔جولائی2022 سے نومبر2022تک پانچ ماہ کے دوران پاکستان کی ایکسپورٹ کی مالیت میں ڈیڑھ ارب ڈالر کمی ہوئی ہے کہاجا سکتا ہے کہ روس کا یوکرین پر حملہ بھی ہمارے لیے کسی آفت سے کم نقصان دہ ثابت نہیں ہوا-

 امریکہ پاک چین تعلقات میں اضافے اور گرمجوشی کو قطعاً پسند نہیں کرتا ۔معیشت کے اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین معاشی اعتبار سے سپر پاور بن چکا ہے لیکن امریکہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ چین کو کسی نہ کسی معاملے میں الجھاکر رکھاجائے اور ا س مقصد میں پاکستان بھی امریکہ کی مدد کرے ۔ پاکستان نے تاحال امریکہ کی اس کوشش میں اس کا ساتھ نہیں دیا اورچین کے خلاف سازشوں سے سے خود کو دور ر کھا ہواہے ۔اسلامی ممالک میں اس وقت کوئی جنگ تو نہیں ہو رہی لیکن عالمی سطح پر معاشی تنزل سے سعودی عرب اور عرب امارات جیسے امیر ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں چانچہ اب پاکستان کو ان ممالک سے وہ فر اخ دلا نہ امداد نہیں مل رہی جو کسی دور میں ملا کرتی تھی ۔ اب سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک بھی پاکستان کی صرف اتنی امدا دکرنے کو تیار ہیں کہ ہم آپکے اکاؤنٹ میں کچھ مدت کیلئے ایک دو ارب ڈالر رکھ تو دیتے ہیں لیکن آپ یہ کیش استعمال نہیں کر سکتے ۔ظاہر ہے کہ یہ ان ممالک کا پاکستان سے اظہار ہمدردی تو ہے لیکن اسے مالی امداد نہیں کہاجا سکتا۔

 افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ اب مغربی بارڈر محفوظ رہے گا اور کابل سے ٹھنڈی ہوائیں آئیں گی لیکن یہ امید ابھی تک پوری نہیں ہو سکی ۔ اس کے برعکس افغانستان میں بچی کھچی تحریک طالبان پاکستان نے خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور افغان طالبان نے ان حملوں کو روکنے کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں کیا ۔جہاں تک پاک بھارت تعلقات کاتعلق ہے ، 2022معمول کاسال ثابت ہوا جس میں ان تعلقات میں کوئی بگاڑ پیدا ہوا نہ ہی بہتری کی کوئی صورت نظرآئی ۔بھارت میں مسلمانوں پر ظلم اور ہندو انتہا پسندی میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور2022میں بھی مختلف واقعات کی صورت میں ہندووں کی مسلمان دشمنی کا مظاہرہ ہوتا رہا ۔

 پاکستان کے سیاسی حالات کی بات کی جائے تو 2022کے آغاز میں ہی یہ محسوس ہو رہاتھا کہ سٹیبلشمنٹ نے عمران حکومت کی حمایت کی پالیسی تبدیل کر لی ہے ، اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپوزیشن نے مارچ2022میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو ایم کیو ایم ، بلوچستان عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ق کے چند ارکان نے عمران حکومت کو خیر باد کہہ دیا ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے فیصل آباد کے ایم این اے راجہ ریاض سمیت پی ٹی آئی کے اپنے تقریباً20ارکان بھی عمران خان کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے اور عمران خان کی حکومت ساڑھے تین برس کے دور اقتدار کے بعد 9 اپریل 2022 کو ختم ہو گئی ۔حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت امریکہ اور فوج کی ملی بھگت کے نتیجے میں ختم کی گئی ہے ۔ پی ٹی آئی کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا ، فوج کو شہباز شریف کی حکو مت سے بہتر کارکردگی کی امید تھی لیکن یہ حکومت معیشت کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہی ۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بعد مسلم لیگی لیڈر اسحاق ڈار کو لندن سے وطن واپس بلوا کر وزارت خزانہ سونپ دی گئی مگر وہ بھی کوئی کرشمہ دکھانے میں ناکام رہے ۔

عمران خان کے دور حکومت میں مارچ 2022میں ڈالر کا ریٹ 180 روپے تھا جو اب سرکاری طور پر225روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر250روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں ڈالر مل ہی نہیں رہا ،آج کل ایل سی کھولنے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ،درآمدی مال کے جہاز بندر گاہوں میں کلیرنس کے لیے کھڑے ہیں۔

رواں مالی سال میں اب تک برآمدات 10فیصدگر گئی ہیں ،گزشتہ برس ایکسپورٹ کی مالیت 32ارب ڈالر رہی تھی ۔ اندازہ ہے کہ جون2023تک ایکسپورٹ 28ارب ڈالر رہ جائے گی یعنی برآمدات کی مالیت میں پانچ ارب ڈالر کی کمی کا خدشہ ہے ۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر میں بھی کمی ہوئی ہے جو معیشت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ عمران خان کے دور میں بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا تھا اور زر مبادلہ 30ارب ڈالر تک پہنچ گیاتھا ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ9 ماہ میں ڈیفالٹ سے اس لیے محفوظ رہا کہ سمندر پارپاکستانیوں نے یہ 30ارب ڈالر یعنی67کھرب روپے بھجوائے ۔ موجودہ حالات میں چند معاشی ماہرین پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں ۔آئی ایم ایف کا رویہ بھی دوستانہ نہیں ، ایک ڈیڑھ ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے سے پہلے حکومت پاکستان سے سخت ترین شرائط منوائی جاتی ہیں جس سے عوام پر زبردست بوجھ پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک نئی حکومت پانچ سالہ مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار نہیں آئے گی ، آئی ایم ایف اور دوست ممالک کا رویہ تبدیل نہیں ہو گا ۔

شہباز حکومت کی پالیسیوں سے پلاٹوں اور مکانوں کی خرید و فروخت پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے ۔میں یہاں ایک ذاتی مشاہدہ تحریر کرنا چاہتا ہوں ۔ چند روز قبل فیصل آباد کی ضلع کچہری جانا ہوا تو میں نے رجسٹرار سے پوچھا کہ2022میں رجسٹریوں کی تعداد میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے یا نہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ عمران دور حکومت کے مقابلے میں رجسٹریوں کی شرح میں پچاس سے ساٹھ فیصد کمی ہوئی ہے ۔عمران حکومت کے آخری ڈیڑھ برسوں میں جائیداد کاکاروبار خوب چمک اٹھاتھا اور پلاٹس اور مکانات کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا ، حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ رجحان برقرار نہیں رہ سکا ۔

ملک میں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ‘‘ چپس’’ (CHIPS)کا جو پیکٹ دس روپے میں ملتاتھا اس کی قیمت تیس روپے تک جا پہنچی ہے ، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی ‘‘کوکومو’’ کے پیکٹ میں سے پہلے پانچ پیس نکلتے تھے جو اب صرف تین رہ گئے ہیں یعنی مہنگائی سے صرف بڑے ہی نہیں ، بچے بھی متاثر نہیں ہو رہے ہیں۔آٹے ، گھی اور بیکری آئٹمز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ، عالمی منڈی میں مارچ2022میں تیل کی قیمت 90 ڈالر سے کم ہو کر 75ڈالر بیرل ہو گئی ہے لیکن موجودہ حکومت پٹرول کے نرخ 237 روپے فی لیٹر تک لے گئی جو اب معمولی کمی کے بعد215روپے فی لیٹر تک آئے ہیں اور یوں عام آدمی کو75روپے فی لیٹر اضافی دینے پڑ رہے ہیں ۔یاد رہے کہ عمران حکومت میں مارچ 2009 میں پٹرول کی قیمت 140روپے فی لیٹر تھی ،شہباز حکومت نے عام آدمی کو ریلیف سے محروم رکھا ہے ، تنخواہ دار طبقہ پس کر رہ گیا ہے ، لوگوں کی آمدن نہیں بڑھی لیکن اخراجات میں ڈیڑھ سے دوگنا اضافہ ہو گیا ہے ۔لوگ ا س قدر پریشان ہیں کہ ان میں احتجاج کرنے کا دم خم بھی نہیں رہا ۔

ملک کے سیاسی حالات پرنظر ڈالی جائے تو عمران خان مارچ 2023تک بہر صورت انتخابات چاہتے ہیں جبکہ شہباز حکومت کی کوشش ہے کہ الیکشن ستمبر ، اکتوبر میں ہوں ۔اس میں شک نہیں کہ عوام کی اکثریت اس وقت عمران خان کے ساتھ ہے جس کا اظہار ضمنی انتخابات میں بھی ہوا ہے۔پاکستانی عوام نے عمران خان کے اس بیانیے کو قبول کر لیا ہے کہ پاکستان امریکہ کا ‘‘پٹھو’’ نہیں ہے اور نواز شریف اور آصف زرداری نے ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔

2022میں اہل پاکستان کے لیے سوائے کرکٹ کے ، ہاکی ، سکواش اور اولمپک گیمز سے بھی کوئی خوش خبری نہیں آئی ۔آسٹریلیا میں کھیلے گئے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ہم فائنل میں پہنچے تو اس میں ٹیم کی کارکردگی سے زیادہ قوم کی دعاؤں کا عمل دخل تھا جن کے اثر سے نیدر لینڈ نے ساؤتھ افریقہ جیسی ٹیم کو ہرایا تو ہمارے لیے سیمی فائنل کا راستہ بنا۔ اسی ورلڈ کپ میں ہم نے روایتی حریف بھارت سے اور زمبابوے جیسی کمزور ٹیم سے بھی شکست کھائی۔ اس سے قبل سات ٹی ٹونٹی میچوں کی ہوم سیریز میں انگلینڈ نے ہمیں شکست دی، پھر انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں توقوم کا دل بری طرح سے ٹوٹا کیونکہ تاریخ میں پہلی بار پاکستانی ٹیم کو وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا یعنی انگلینڈ نے ہماری ٹیم کو تین صفر سے ہرا دیا۔

اس طرح معیشت کی ستائی قوم کو کر کٹ کا مقبول کھیل بھی مسرت کے چند لمحے نہ دے سکا۔ قصہ مختصر ،2022اہل پاکستان کے لیے خوشیوں کا سال ثابت نہیں ہوا ، مسلمان اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا ، ہمیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ نیا سال2023 پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے خوشیوں اور کامیابیوں کاسال ثابت ہو گا ۔ ہمیں نئے آرمی چیف جنرل عاصم سے امید ہے کہ وہ فوج کو سیاسی عمل سے دور رکھیں گے اور اگر ضرورت محسوس بھی ہوئی تو فوج سیاسی عمل میں مداخلت کے بجائے شریک مشاور ت ہونے تک محدود رہے گی ۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ 2023میں شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن ہوں گے جن کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت بہتر پالیسیاں اپنائے گی اور ملکی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہے گی ۔