صدر مملکت کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری
اسلام آباد: 26 ویں آئینی کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
گزشتہ روز کابینہ کی منظوری کے بعد دونوں نے ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جس میں حکومت نے دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت ثابت کی۔
کابینہ اور دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے دستاویز کو دستخط کے لیے صدر کو بھجوایا تھا۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کے گزٹ نوٹیفکیشن پر دستخط کیے جس کے بعد نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
آئینی ترمیم کی منظوری
26 ویں آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں شق وار منظوری کیلئے ووٹنگ کروائی گئی، اس دوران 225 ارکان نے تمام 27 شقوں کی شق وار منظوری دی۔
شق وار منظوری کے بعد وزیرقانون نےآئینی ترمیم باضابطہ منظوری کیلئے ایوان کے سامنے پیش کی جس کے بعد ڈویژن کےذریعے ووٹنگ کی گئی، نوازشریف نےڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں سب سے پہلے ووٹ دیا۔
اس سے قبل سینیٹ سے منظوری کے بعد وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نےقومی اسمبلی سے شق وار منظوری کیلئے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی تھی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک پر ارکان نے کھڑے ہوکر ووٹ کیا، ترمیم کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان اسمبلی نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی۔
سینیٹ نے دوتہائی اکثریت سے منظوری
ملکی ایوان بالا (سینیٹ) نے دوتہائی اکثریت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی تھی۔
سینیٹ میں آئینی ترامیم کے حق میں 65 اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ آئے۔ ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے تھے۔
ترامیم پڑھیے
جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹس کے ججزکی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔
سپریم کورٹ کے ججزکی تقرری کمیشن کے تحت ہوگی۔
کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج اور سپریم کورٹ کے 3 سینئرموسٹ جج شامل ہوں گے، کمیشن میں وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا 15 سال کا تجربہ رکھنے والا وکیل شامل ہوگا، جوڈیشل کمیشن میں سیینٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے جب کہ کمیشن میں ایک خاتون یا غیر مسلم رکن بھی ہوگا جو سینیٹ میں بطورٹیکنوکریٹ تقررکی اہلیت رکھتا ہو۔
چیف جسٹس پاکستان کو اسپیشل پارلیمانی کمیٹی نامزد کرے گی اور چیف جسسٹس سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ہوگا، نامزد جج کے انکارکی صورت میں بقیہ 3 سینئرججز میں سے کسی کو نامزد کیا جاسکےگا۔
پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان ہوں گے، کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے14 روزقبل نامزدگی کرے گی۔
آئین منظوری کے بعد چیف جسٹس کی پہلی نامزدگی 3 روز قبل ہوگی، کمیشن یا کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جاسکے گا۔
کمیشن ہائیکورٹ کے ججزکی کارکردگی کا سالانہ جائزہ لے گا اور ناقص کارکردگی پرجج کو بہتری کے لیے مہلت دی جائے گی، دوبارہ ناقص کارکردگی پرکمیشن جج کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گا۔
سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اورفیڈرل شریعت کورٹ میں خالی جگہ بھرنے کے لیے کمیشن کا کوئی رکن بھی نامزدگی کرسکتا ہے۔
کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہوگا جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہو اور سپریم کورٹ کا جج ہونے کے لیے 5 سال ہائیکورٹ کا جج ہونا یا 15 سال ہائیکورٹ/سپریم کورٹ کا و کیل ہونا لازم ہوگا۔
چیف جسٹس کی مدت3 سال ہوگی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفی دے، 65 سال کا ہوجائے یا برطرف کیا جائے۔
سپریم کورٹ ازخود نوٹس کی بنیاد پرکسی درخواست کے مندرجات سے باہرکوئی حکم یا ہدایت جاری نہیں کریگی۔
سپریم کورٹ کسی کیس یا اپیل کو دوسری ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ منتقل کرسکے گی۔
سپریم کورٹ میں آئینی بینچ ہوگا جس میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں گے اور آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز ہوں گے، سینئرترین جج آئینی بینچ کا پریزائیڈنگ جج ہوگا جب کہ آئینی بینچ کے سوا کوئی بینچ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار اور آئین کی تشریح سے متعلق معاملہ نہیں دیکھےگا، آئینی بینچ میں کم ازکم5 ججزہوں گے۔
متعلقہ تمام درخواستیں یا اپیلیں آئینی بینچ کو منتقل کی جائیں گی۔
ہائیکورٹ میں کوئی جج تعینات نہیں ہوگا جوپاکستانی شہری نہ ہو اور 40 سال سے کم عمرنہ ہو، ہائیکورٹس میں بھی آئینی بینچ ہوگا۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس پاکستان، سپریم کورٹ اورہائیکورٹ کے 2 دوسینئر ترین ججز ہوں گے۔
کونسل میں اختلاف پراکثریت کا فیصلہ حاوی ہوگا اور کونسل کی انکوئری کے بعد جج کی برطرفی کے لیے صدر کو رپورٹ کی جائے گی۔
چیف الیکشن کمشنریا ممبراپنی مدت پوری ہونے پراپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔
جنوری 2018 تک ربا کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
کابینہ یا وزیراعظم کا صدرکودیا گیا مشورے پر کسی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
قومی وصوبائی اسمبلی، سینیٹ اوربلدیاتی حکومتوں کے قیام کے الیکشن کے لیے درکار رقم چارجڈ اخراجات میں شامل ہوگی۔