وزیراعظم شہباز شریف کو درپیش اہم چیلنجز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف پاکستان نے 24 ویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں، انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں 16 ماہ تک مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت کی قیادت کی تھی اور اس دوران بطور وزیر اعظم خود کو منوایا تھا۔

شہباز شریف کی قیادت نے ناصرف ایک کمزور اتحادی حکومت کو برقرار رکھا بلکہ یہ حکومت اپنے آخری دنوں میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک اہم معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب رہی۔

شہباز شریف ملکی سیاسی تاریخ میں وہ واحد سیاستدان ہیں جو مسلسل دوسری مدت کے لیے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔

اگست 2022 میں 16 ماہ کے مختصر عرصے کے لیے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی شہباز شریف ایک اچھے منتظم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔

2024 کے عام انتخابات سے قبل تجزیہ کاروں اور سیاسی پنڈتوں کی رائے میں میاں شہباز شریف کے بڑے بھائی نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم بننے کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔

تاہم قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے باوجود نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی کو پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا کیونکہ وہ خود مخلوط حکومت کی قیادت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک منقسم پارلیمنٹ وجود میں آئی اور کسی بھی جماعت نے مرکز  میں حکومت بنانے کے لیے درکار اکثریتی نشستیں حاصل نہیں کیں۔ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پاکستان پیپلز  پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔

طویل ترین عرصے تک منصب پر رہنے والے وزیراعلیٰ

شہباز شریف صوبہ پنجاب کے طویل ترین عرصے تک منصب پر رہنے والے وزیر اعلیٰ ہیں، انہوں نے تقریباً چار دہائیوں قبل اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد سے اس عہدے پر تین مرتبہ خدمات انجام دی ہیں۔

شہباز شریف لاہور کے گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل ہیں، وہ پہلی بار 1985 میں اس وقت سامنے آئے جب انہیں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدر مقرر کیا گیا۔

شہباز شریف نے 1988 میں سیاست میں قدم رکھا اور  پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، انہوں نے 1990 تک مختصر مدت کے لیے بطور  رکن اسمبلی خدمات انجام دیں جس کے بعد اسمبلی تحلیل ہو گئی۔

اسی سال (1990) میں انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقے سے انتخاب لڑا اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے رکن بن گئے، 1993 میں وہ دوبارہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1996 تک قائد حزب اختلاف رہے۔

بعدازاں 1997 میں شہباز شریف نے تیسری بار  پنجاب اسمبلی کے حلقے سے کامیابی حاصل کی اور  پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔

تاہم فوج کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شہباز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا اور بعد میں آٹھ سال کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔

2008 میں شہباز شریف دوبارہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور دوسری مدت کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب بنے، اس بار انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کی مدت مکمل کی۔

2013 میں عام انتخابات کے بعد شہباز شریف ایک مرتبہ پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے جبکہ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور انہیں اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزد کیا گیا۔

اپریل 2022 میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ الائنس (پی ڈی ایم) کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے۔

بطور  وزیراعظم شہباز شریف کی کارکردگی

شہباز شریف نے گزشتہ دور حکومت میں بطور وزیر اعظم 16 ماہ تک مختلف جماعتوں کے اتحاد کو اکٹھا رکھنے اور 2023 میں آئی ایم ایف سے معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اپنے مختصر دور حکومت میں شہباز  شریف کی سب سے بڑی کامیابی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کرنا تھا۔

تاہم ان کی حکومت کے دوران روپے کی ریکارڈ گراوٹ کے ساتھ افراط زر 38 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھو گئی جس کی بنیادی وجہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہونے والی ضروری اصلاحات تھیں۔

شہباز شریف معاشی بدحالی کا الزام عمران خان کی حکومت پر لگاتے ہیں اور ان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑ دیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کو درپیش اہم چیلنجز

پاکستان بدستور معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے جس میں افراط زر کی شرح 30 فیصد کے قریب ہے اور اقتصادی ترقی کی شرح تقریباً 2 فیصد ہے۔

شہباز شریف کو اگلے ماہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی معیاد ختم ہونے کے بعد نئے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی جو پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے ضروری ہے۔

قومی ائیرلائن سمیت کچھ دیگر سرکاری اداروں کی نجکاری اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانا بھی معاشی بحران کو کم کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہوگا۔

شریف برادران کے سعودی عرب اور قطر کے حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، یہ تعلقات پاکستان کی جانب سے حال ہی میں متعارف کروائے گئے متعدد منصوبوں میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

شہباز  شریف کو  پاکستان کے دو بڑے اتحادی ممالک امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنا ہوگا، انہیں پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک میں سے تین یعنی بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات سے نمٹنے کا مشکل سفارتی چیلنج بھی درپیش ہے۔

شہباز کی وزارت عظمیٰ کا نہ صرف ان کے اتحادیوں بلکہ حریفوں کی طرف سے بھی بے رحمی سے احتساب کیا جائے گا اور  پاکستان کو معاشی مشکلات سے باہر نکالنے، سیاسی ہم آہنگی اور سفارتی استحکام کو فروغ دینے کی ان کی صلاحیت کا آنے والے وقت میں سخت امتحان ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *