قدرت کے فیصلے قبول کرنے پڑتے ہیں
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط نمبر31)
تحریر: محمد اسلم
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ز ندگی اورموت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ قران مجید میں ارشاد ربانی ہے:
کل نفس ذائقہ الموت
ہر جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے
قبرستان ہم سب کے رشتہ داروں، دوستوں اورعزیزوں کی قبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ موت شیر خوار بچے سے لے کر 100 سالہ بزرگ تک کسی کے ساتھ بھی رعایت نہیں کرتی اور جب کسی کا وقت آجاتا ہے اسے دنیا سے جانا ہی پڑتا ہے- میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو میرے بڑوں میں سے اب کوئی حیات نہیں ، میرے تمام تایا ، چچا ، ماموں اور ان کی بیگمات اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں- اب تو میرے ہم عمر کزنوں میں سے بھی 25فیصد وفات پا چکے ہیں۔ بر طانیہ کے شہر گلاسکو میں دس ماہ قبل میرے ماموں حاجی محمد یوسف کی65سالہ نواسی ثمینہ جو رشتے میں میری بھانجی تھی ، اچانک ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئی تھی۔ میں ان دنوں پاکستان میں تھا ، جب گلاسگو پہنچا تو افسوس کے لیے مرحومہ کے گھر جانے کا پروگرام بنایا ، اس کا گھر بڑے بھائی محمد ادریس کے گھر سے دو فرلانگ پر تھا- مرحومہ کے گھر پہنچے تو ان کے بیٹوں ابوبکر اور علی سے ملاقات ہوئی- دونوں بہت نیک بچے ہیں ، تبلیغی جماعت کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کی طبیعت وفات سے ایک روز پہلے خراب ہوئی جس کے بعد انہیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئیں- تعزیت کے موقع پر وہاں مرحومہ کی ایک چھوٹی بہن شاہین بھی موجود تھی، اس کی عمر 64 برس تھی ، ا س کے خاوند کا تعلق چیچہ وطنی سے ہے۔ یہ لوگ 1984 میں فیصل آباد کے محلہ گورو نانک پورہ سے برطانیہ گئے تھے اور گلاسگو میں آباد ہوئے تھے- انہیں وہاں رہتے 40سال ہو گئے تھے- میں 27 جون کو وطن واپس آگیا۔ دو مہینے بعد خبر پہنچی کہ 26 اگست کو گلاسگو میں” شاہین ”کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ میرے لیے یہ خبر انتہائی غیر متوقع تھی- ہم ایک بھانجی کی تعزیت کر کے آئے تھے اور صرف دو ماہ بعد اس کی بہن بھی اللہ تعالی کے حضور پیش ہو گئی۔ شاہین 1959 میں افر یقہ کے ملک کینیا میں پیدا ہوئی- اس کی پرورش فیصل آباد میں ہوئی اور اس نے کارخانہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین کارخانہ بازار فیصل آباد سے تعلیم حاصل کی۔ 1984 میں وہ برطانیہ چلی گئی اور تقریباً چالیس برس بعد برطانیہ ہی کی مٹی اوڑھ کر ہمیشہ کی نیند سو گئی میں- اس داستان حیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات انسان کی زندگی کے مختلف مراحل کہیں اور گزرتے ہیں اور اسے قبر کہیں اور نصیب ہوتی ہے۔
کئی بار میں سوچتا ہوں کہ لاکھوں پاکستانی جوبرطانیہ، یورپ امریکہ اور آسٹریلیا میں رہتے ہیں ، ان میں سے شاید دو چار فیصد کو ہی پاکستان کی مٹی نصیب ہو- وہ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جن کو مرنے کے بعد اپنی مٹی میں دفن ہونا نصیب ہوتا ہے- ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو1857میں جنگ آزادی کے بعد برما جلا وطن کر دیاگیاتھا- انہوں نے رنگون (برما )میں اپنے وفات سے قبل کس حسرت کے ساتھ یہ شعر کہا تھا :
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کو ئے یار میں
جو اپنی مٹی میں دفن ہوتے ہیں ان کو اپنے پیاروں کی قبروں کے اس پاس جگہ ملتی ہے اور ان کی اولاد، دوست احباب اور رشتہ دار آتے جاتے قبرستان سے گزرتے ہیں تو دعا بھی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہیں جن کی زندگی پاکستان میں گزرتی ہے لیکن قبر بیرون ملک بنتی ہے۔ یہ قدرت کے فیصلے ہیں جن میں مداخلت نہیں کی جا سکتی- دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر کسی کو اپنے وطن کی مٹی نصیب فرمائے- جب آدمی اپنی مٹی میں دفن ہوتا ہے تو گویا اس کی زمین ایک ماں کی طرح اسے اپنی گود میں لے لیتی ہے۔ بیرون ملک کی زمین کبھی آغوش مادر نہیں بن سکتی۔
میری پاکستان واپسی میں صرف تین دن باقی رہ گئے تھے- میں بھائی ادریس کے ساتھ گلاسگو کے قبرستان میں گیا تاکہ والدین اور دیگر عزیز و اقارب کو الوداعی سلام کر لوں۔قبرستان پہنچ کر میں نے اپنے والدین کی قبر پر فاتحہ خوانی کی تو آنکھوں میں آنسو آگئے- والدین کے ساتھ گزرا ہوا وقت ، ان کی محبت اور شفقت کے مناظر نظروں میں گھوم گئے- دل کہہ رہاتھا کہ مجھے 10 سال بعدبرطانیہ آنے اور والدین کی قبروں پر حاضری کا موقع ملا ہے، اب اللہ جانے، ان سے دوبارہ کب ملاقات ہوگی-
میں اپنے والدین کی قبروں پر کئی منٹ تک ان سے باتیں کرتا رہا۔ ازروئے حدیث یہ بات ثابت ہے کہ قبر والے ہماری باتیں سنتے ہیں اسی لیے قبرستان سے گزرنے والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ” السلام علیکم یا اہل القبور” کہہ کر قبر والوں کو سلام کریں- میں نے والد صاحب کی قبر پر بیٹھ کر باتیں کرتا رہا اور کہا کہ میں پاکستان واپس جا رہا ہوں ، نجانے دوبارہ کب ملاقات ہو ؟ میں نے یہ محسوس کیا کہ گلاسگو کا قبرستان تیزی سے بھرتا جا رہا ہے۔ 1970 کے عشرے میں گلاسگو کے مسلمان قبرستان میں صرف 30 یا 40 قبریں تھیں لیکن اب قبروں کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ چکی ہے- میں بھیگی انکھوں کے ساتھ قبرستان سے واپس آیا- لبوں پر یہ دعا تھی کہ کہ اے رب کریم ! میرے والدین اور دیگر مسلمانوں کو جنت میں اعلی درجہ عطا فرما-
شام کو ہم سب بھائی اپنی ہمشیرہ کے گھر پر اکٹھے ہوئے جہاں ہمارے لیے کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا- ماموں زاد بھائی محمد مشتاق اور ہمشیرہ کے بچے حسیب، زین اور شعیب بھی موجود تھے اور اپنے مرحومین کی باتیں بھی ہوتی رہیں- سب بہن بھائی آپس میں گپ شپ کرتے رہے۔ اس موقع پر میرا بھتیجا فاروق اور میرا نواسہ حذیفہ بھی موجود تھے یہ بہت اچھی بات ہے کہ پردیس میں رہنے والے پاکستانی بھی ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے اور دعوتیں کرنے کی خوبصورت روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ، ان دعوتوں سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور عزیز رشتہ دار ایک دوسرے کے مزید نزدیک آتے ہیں-
ماموں چوہدری نظام الدین کا چھوٹا بیٹا محمدشفیق مجھ سے ملنے کے لیے آگیا۔ شفیق نے ایک مقامی انگریز خاتون سے شادی کر رکھی ہے۔ شفیق انتہائی بردبار اور ہمیشہ مسکراتے رہنے والا آدمی ہے۔ ایک زمانے میں اس نے کئی ریسٹورنٹ کامیابی سے چلائے اور کئی عشروں تک اس کاروبار سے وابستہ رہا- آج کل وہ ڈے کیئر سینٹر چلا رہا ہے۔ میں نے شفیق سے پوچھا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ وہ بولا کہ برطانیہ میں اکثر خواتین کام کرتی ہیں، ہمارے کاروبار کے لیے یہ چیز بہت معاون ثابت ہوئی ہے، ان عورتوں کو اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑنا پڑ تا ہے، یہ ان کی مجبوری ہے- محمد شفیق کہنے لگا ، تم بہت خوش نصیب ہو جو پاکستان میں سیٹل ہو۔
۔۔۔۔۔(جاری ہے )۔۔۔۔۔