پنجاب کے مشہور ٹرانسپورٹر “شیر برادرز” کی فیملی

پانچ ہفتے برطانیہ میں     (قسط نمبر29)

تحریر: محمد اسلم

1970 کے عشرے میں” شیر برادرز ”کا پنجاب بھر میں ایک نام تھا ۔ان کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا اور ان کی بسیں سمندری،فیصل آباد، لاہور اور راولپنڈی کے روٹس پر چلتی تھیں۔ شیر برادرز کی بسیں بہت اچھی اور سروس عمدہ تھی، اس وقت تک کوہستان بس سروس کا آغاز نہ ہوا تھا ۔شیر برادرز کی حریف کمپنیوں میں ایم نذیر عنایت اللہ اور نیاز بس سروس شامل تھیں ۔عام لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ شیر برادرز ٹرانسپورٹ سروس کے مالکان کا تعلق سمندری کے نوا حی چک 470 ”کوٹاں” سے ہے ۔ یہ لوگ پانچ بھائی تھے، ان کا تعلق ارائیںفیملی سے تھا ۔حاجی شیر محمد 1934 میں بحری جہاز کے ذریعے پہلے لندن گئے اور پھر گلاسگو پہنچے جہاں انہوں نے گلی گلی محلے محلے میں بطور پیڈلر کام شروع کیا۔ وہ 30 برس سے زائد عرصے تک بطور پیڈلر کام کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے بھائیوں کو بھی برطانیہ بلالیا ، ان لوگوں نے محدود آمدن میں گزارا کیا پھر کلاسگو کے محلے ”گوربل ”(GORBAL)میں ایک چھوٹی سی ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان لی اور پیڈلرز اور دیگر گاہکوںسامان فروخت کرنے لگے۔ قسمت کی بات ہے کہ یہ خاندان دیکھتے ہی دیکھتے لکھ پتی ،کروڑپتی اور پھر ارب پتی بن گیا۔حاجی شیر محمد کا1981 میں انتقال ہوا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے رفیق شیر نے کاروبار کی سربراہی سنبھالی۔ یہ لوگ چین خان کانگ اور دیگر ممالک سے ٹیکسٹائل اور ہارڈویئر کا سامان منگواتے اور تھوک میں فروخت کرتے ہیں۔ چوہدری شیر محمد اور ان کے بھائیوںکے مزاج میں بہت نرمی تھی اور ان کی اگلی نسل کا اخلاق بھی بہت ا چھا ہے ۔ یہ لوگ دوسروں سے گھل مل کر رہنا جانتے ہیں۔ رفیق شیر 1997 میں چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تو ان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور 30 دسمبر 1997 کو ان کا فیصل آباد میں انتقال ہو گیا جس کے بعد خاندان والوں نے رفیق شیر کے تایا زاد بھائی منور حیات کو شیر برادرز گروپ کا چیئرمین بنا لیا۔ منور حیات میٹرک پاس ہیں مگر ان میں کاروبار چلانے کی تمام صلاحیتیں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں ۔

میں نے اپنے گلاسگو میں قیام کے دوران منور حیات سے ملاقات کا وقت طے کیا ہوا تھا ۔لندن اور کارڈف کے سفر کے بعد میں 14 جون کو گلا سگو واپس پہنچا اور دن بھرآرام کیا۔ دوسرے روز 15 جون کو تین بجے میں اور بھائی ادریس ان کے آفس میں پہنچے تو وہ بہت اچھے طریقے سے ملے ۔سادہ طبیعت کے مالک منور حیات میرے ہم عمر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 1949 میں سمندری کے نواحی گاؤں 470 ”کوٹا ں”میں پیدا ہوئے اور ملحقہ گاو ٔں کے سکول سے پرائمری اور میٹرک کے امتحانات پاس کیے۔ ان کے والد فقیر محمد ، مشہور ٹرانسپورٹرحاجی شیر محمد کے بڑے بھائی تھے۔ منور حیات کا گھرانہ دو بھائیوں اور پانچ بہنوں پر مشتمل تھا ۔ ان کی والدہ 1954 میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئی تھیں اس وقت ان کی عمر صرف پانچ سال تھی۔

 منور حیات نے بتایا کہ انہوں نے 1966 میں میٹرک پاس کیا تو ان کے چچا زاد بھائی رفیق شیر پاکستان آئے ہوئے تھے ، ان دنوں شیر برادرز کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار عروج پر تھا۔ میٹرک کے بعد وہ سمندری سے فیصل آباد کے روٹ پر بطور چیکر کام کرنے لگے ۔چچا شیر محمد کے بیٹے رفیق شیر پاکستان آئے تو انہیں یہ کام کرتے ہوئے دو مہینے ہو گئے تھے۔ رفیق شیر نے کہا کہ منور سے بسوں میں کام نہیں کروانا اسے برطانیہ لے جاتے ہیں۔ اس دور میں ایوب خان کی حکومت تھی۔ راولپنڈی میں میجر ریٹائرڈ اشرف ڈپٹی کمشنر تھے، ان کا تعلق رائے ونڈ سے تھا ۔ ان کے چچا شیر محمد اور چچا محمد علی سے بہت اچھے تعلقات تھے اور اتنی دوستی تھی کہ انہوں نے شیر برادرز کے روٹ پر اپنی دو بسیں بھی ڈال رکھی تھیں۔منور حیات بتاتے ہیں کہ بھائی رفیق مجھے ساتھ لے کر ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور اس طرح ایک ہی روز میں میرا برطانیہ کا ویزہ لگ گیا۔ اس دور میں برطانیہ کا ویزہ حاصل کرنا بہت زیادہ مشکل نہ تھا ۔ ہائی کمشنر نے نہ صرف ویزا لگایا بلکہ ہمیں چائے بھی پلائی۔میں 15 ستمبر 1966 کو افغان ایئر ویز کی پرواز کے ذریعے لاہور سے براستہ کابل انگلینڈ چلا گیا اس سفر میں بھائی رفیق بھی میرے ہم سفر تھے ۔میرے والد فقیر محمد اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی سمندری کے گاؤں ”کوٹا ں”ہی میں گزاری اور انگلینڈ نہیں گئے۔ میں نے انگلینڈ پہنچ کر پہلا خط اپنے والد کو لکھا ۔

منور حیات نے بتایا کہ برطانیہ جاتے ہوئے ارادہ یہ تھا کہ میں صرف چند ماہ کے لیے وہاں قیام کروں گا کیونکہ میں مزید تعلیم کے لیے کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا لیکن بھائی رفیق شیر نہ مانے اور انہوں نے کہا کہ تم اب برطانیہ ہی میں رہو ۔1966 میں گلاسگو میں صرف تین چار سو پاکستانی رہتے تھے۔ ہندوستانیوں کی تعداد تقریبا 30 تھی، اسی طرح چند بنگالی اور عربی گھرانے بھی گلا سگو میں آباد تھے ۔ اس زمانے میں گلاسگو میں پاکستانیوں کی اکثریت بس کنڈکٹر، ڈرائیور یا پیڈلر کا کام کرتی تھی ۔پاکستانی کمیونٹی نے آکسفورڈ سٹریٹ میں دوسری منزل میں ایک مکان کے اوپر ایک مسجد بنائی ہوئی تھی۔ پاکستانیوں کی بہت کم دکانیں تھیں۔ اتوار کے روز پاکستان ویلفیئر سوسائٹی کراؤن سٹریٹ میں سینما کرائے پر لے کر پاکستانی اور ہندوستانی فلموں کی نمائش کرتی تھی۔گلاسگو لندن موٹروے ابھی نہیں بنی تھی۔ عام ادمی کی تنخواہ 5سے 10 پونڈ فی ہفتہ تھی۔

منور حیات نے مزید بتایا کہ جب وہ 1966 میں گلا سگو پہنچے تو ان کے چچا شیر محمد نے وہاں ریڈی میڈ گارمنٹس کی ایک چھوٹی سی دکان خریدی ہوئی تھی جس میں ہول سیل کا کام ہوتا تھا ۔  چچا شیر محمد نے 1965 میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن بھی خرید لیا تھا ۔ اس زمانے میں گلاسگو میں شاہین، کاکا، ایس ایم ساحر، برکلے اور عطا محمد ٹانڈے والا کے ویئر ہاؤسز تھے۔ میں شیر برادرز کے ویئر ہاس میں کام کرنے لگا اور میری تنخواہ تین پونڈ فی ہفتہ مقرر ہوئی۔ پہلے پہل مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ میں صرف میٹرک پاس تھا اور مجھے انگریزی زبان نہیں آتی تھی۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے میں نے انس لینڈ کالج (ANISLAND COLLEGE) میں چھ ماہ تک نائٹ کلاسز میں انگریزی زبان سیکھی۔دکانداری کے باوجود چچا شیر محمد اس وقت بھی بطور پیڈلر یعنی ڈور ٹو ڈور (DOOR TO DOOR)بزنس کے لیے بھی جایا کرتے تھے۔ وہ یہ کام 1968 تک کرتے رہے۔ 1968 میں چچا شیر محمد نے اپنے گورے گاہک میرپور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص اور ایک سکھ سردار کو فروخت کر دیئے اور پیڈلر کا کام چھوڑ دیا ۔ اس زمانے میں ہماری مشترکہ رہائش 55 گوربل سٹریٹ (GORBAL STREET) کی دوسری منزل پر تھی۔ یہ تین منزل کا بیڈ روم تھا ۔میرے والد کا 1970 کے عشرے میں” کوٹا ں”میں انتقال ہوا ۔میں پاکستان میں ان کے جنازے میں شریک ہوا تھا ۔میری شادی 1971 میں چچا رحمت کی بیٹی سے ہوئی اور 1972 میں میری اہلیہ برطانیہ آگئی ۔

 منور حیات کا کہنا تھا کہ ان کے والد فقیر حسین برطانیہ نہیں آئے۔ اس حوالے سے دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے والد نے ایک موقع پر برطانیہ آنے کے لیے پاسپورٹ بنا لیا تھا مگر چچا شیر محمد نے جب انہیں گلا سگو میں ہماری کیش اینڈ کیری کی ایک تصویر دکھائی جس میں بہت سی گوریاں سکرٹ پہنے ہوئے موجود تھیں تو وہ تصویر دیکھ کر ابا جان بولے کہ میں ایسے بیہودہ ملک میں نہیں جاؤں گا جس میں عورتیں ایسے لباس پہنتی ہیں ۔منور حیات کے دو بیٹے تبسم حیات، سہیل حیات اور دو بیٹیاں ہیں ۔سہیل حیات ”ہاؤس آف شیر ”سپر مارکیٹ کے انچارج ہیں جبکہ تبسم کی گلاسگو سے 15 میل دور ”پیزلے”(PAISLEY)قصبے میں موبائل فون کی دکان ہے ۔منور حیات نے بتایا کہ وہ اپنے چچا شیر محمد کے پوتوں اور رفیق شیر کے بیٹوں امتیاز اور عرفان کے ساتھ مل کر شیر برادرز کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ پہلے پہل ہم لوگ ہر چند ماہ بعد پاکستان کا چکر لگاتے تھے اور” کوٹا ں”گاؤں اور فیصل آباد میں سول لائنز کے علاقے میں اپنی کوٹھی میں کئی کئی ماہ قیام کرتے تھے پھر ہماری اولادیں بڑی ہو گئیں۔ اب پاکستان بہت کم جانا ہوتا ہے۔

 منور حیات نے بتایا کہ ان سے پہلے شیر برادرز کے کاروبار کے انچارج رفیق شیر تھے جو چچا شیر محمد کے بیٹے تھے۔ رفیق شیر کا 30 دسمبر 1997 کو انتقال ہوا جس کے بعد خاندان نے یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی۔ اب ہم نے شیر برادرز کے اثاثہ جات بھی آپس میں تقسیم کر لیے ہیں۔ ہمارے پاس تین کیش اینڈ کیریز ہیں۔ ایک کیش اینڈ کیری کو میں اور رفیق شیر کے بیٹے چلاتے ہیں۔ دوسری سپر مارکیٹ ہے جس کا انچارج میرا بیٹا سہیل حیات ہے ۔تیسری کیس اینڈ کیری ”BONNYPACK ”میں ہارڈویئر کا سامان ہوتا ہے اس کا انچارج چچا زاد عبدالستار تھا جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ہم ہانگ کانگ اور چین سے مال منگوا کر گلاسگو میں تھوک میں فروخت کرتے ہیں۔ منور حیات نے بتایا کہ انہوں نے برطانیہ کی سابق ملکہ الزبتھ کو نہیں دیکھا البتہ 1980 کے عشرے میں گلاسگو میں مسجد سے ملحقہ کمیونٹی ہال کے افتتاح پر موجودہ بادشاہ چارلس آئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے چارلس کے ساتھ ڈنر کیا تھا۔ پاکستانی حکمرانوں میں سے انہوں نے ایوب خان ،جنرل ضیا الحق، محمد خان جونیجو، میاں نواز شریف اور عمران خان کو دیکھا ہے۔ منور حیات نے بتایا کہ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈز جمع کرنے کے سلسلے میں گلاسگو آئے تھے۔

گفتگو کے آخری مراحل میں منور حیات نے کہا کہ ان کے خاندان نے گلاسگو میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ ان کے بڑوں نے جامع مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالا ۔ہمارے خاندان کے لوگوں نے 1980 کے عشرے میں ہی گلاسگو کے اچھے علاقوں میں مکان خرید لیے تھے جو اب کروڑوں روپے کے ہیں ۔ منور حیات نے مجھے بتایا کہ ان سے میری(کالم نگار کی ) پہلی ملاقات 1968 میں گلاسگو میں ہوئی تھی، بعد میں، میں نے ان کے خاندان سے 1976 میں فیصل آباد میں” گفٹو سپر سٹور ”خریدا ۔

منور حیات نے ہماری تواضع کافی اور بسکٹ سے کی۔ حاجی شیر محمد اور ان کے خاندان کے دیگر افرادکے میرے والد اور بھائیوں سے دیرینہ دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ شیر برادرز دیندار لوگ ہیں، ان کے سادگی مثالی ہے، ان کو دیکھنے سے یہ بالکل پتہ نہیں چلتا کہ یہ ارب پتی لوگ ہیں۔ ایسے لوگ ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *