سرسبز و شاداب کارڈف اور پرانی یادیں
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 26)
تحریر: محمد اسلم
برطانیہ کے حالیہ سفر میں لندن میں دو مصروف دن گزارنے کے بعد 13 جون کو سہ پہر تین بجے ہم نے ”کارڈف”(cardiff) کا رخ کیا جو برطانیہ کے صوبہ ”ویلز” کا دارالحکومت ہے۔ ہمارے قارئین کی اکثریت کو صوبہ ویلز کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں ہوگی۔سن 1500 سے پہلے ویلز انگلینڈ سے الگ ملک تھا ،پھر انگلینڈ اور ویلز کے درمیان 1536میں سمجھوتہ ہوا جس کے تحت دونوں ممالک اکٹھے ہو گئے۔ویلز کا صوبہ برطانیہ کے دیگر صوبوں سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے مقابلے میں انگلینڈ کے بہت قریب واقع ہے۔صوبہ ویلز کا دارالحکومت کارڈف لندن سے150 میل کے فاصلے ہے ۔یہاں کی آبادی32 لاکھ ہے ۔ویلز کے رہنے والے شکل صورت کے اعتبار سے تو بالکل انگلینڈ کے لوگوں جیسے ہی نظر آتے ہیں لیکن ان کی زبان انگلش سے مختلف ہے اورWELSHکہلاتی ہے، ویلز کے30فیصد لوگ آج بھی اپنی زبان بولتے ہیں۔ لندن سے موٹروے کارڈف جاتی ہے اور تقریباً تین گھنٹے کا سفر ہے ۔ میرا بھتیجا محمد شعیب کار چلا رہا تھا اور بڑے بھائی محمد ادریس فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے بھائی ادریس سے پوچھا کہ کیا ہم کارڈف میں آج رات رکیں گے، انہوں نے جواب دیا نہیں، ہم راتوں رات گلاسگو کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔
موٹر وے پر ہم جیسے جیسے کارڈف کے قریب پہنچتے گئے ، مزید سرسبزو شاداب علاقہ آتا گیا ۔ کارڈف میں پاکستانیوں کی تعداد تقریبا 10 ہزار ہے۔کارڈف سے میری کئی پرانی یادیں وابستہ ہیں ۔ میں پہلی مرتبہ1979اور دوسری مرتبہ 1984میں یہاں آیاتھا ، اس کے بعد بھی اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے دو تین مرتبہ مزید آنا ہوا ۔کارڈف میں ہمارے عزیز و اقارب کے پانچ، چھ گھرانے آباد ہیں۔ افغان آباد سے تعلق رکھنے والے میرے ہم عمر محمد اقبال اور ان کی ہمشیرگان یہاں رہتی ہیں، اسی طرح میرے ماموں حاجی محمد یوسف کی بیٹی کا گھرانہ بھی یہیں آباد ہے۔ ڈی ٹائپ سے تعلق رکھنے والے محمد یعقوب مرحوم کے بیٹے بھی کارڈف ہی میں رہتے ہیں۔
اپنے جن رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کے لیے ہم کارڈف جا رہے تھے ان کے یہاں آباد ہونے کی کہانی بہت دلچسپ ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان آج سے 60 سال پہلے بھی برطانیہ میں رنگین زندگی گزارنے کے خواب دیکھا کرتے تھے اور ان خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے سا ت سمندر پار چلے جاتے تھے۔ کہانی ایسے ہے کہ نذیر احمد اور محمد یعقوب 1965 میں فیصل آباد سے برطانیہ کے لیے روانہ ہوئے اور والدین نے اپنی دعاؤں کے سائے میں انہیں رخصت کیا۔برطانیہ میں ان کی منزل کارڈف شہر تھا جہاں نذیر احمد کے ماموں زاد بھائی یاسین کچھ عرصہ پہلے آکر آباد ہوئے تھے۔ کارڈف پہنچنے کے چند ماہ بعد یاسین نے گوری خاتون سے شادی کر لی تھی ۔ یا سین ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں” بیریانوالہ ”کے رہنے والے تھے ۔ یہ گاؤں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تین میل دور رجانہ روڈ پر واقع ہے ۔نذیر احمد اور محمد یعقوب دونوں نے کارڈ ف پہنچنے کے چند ماہ بعد یاسین کی تقلید کرتے ہوئے گوریوں سے شادیاں کر لیں۔ ان لوگوں کے لندن، برمنگھم اور مانچسٹر جیسے شہروں کو چھوڑ کر کارڈف میں آباد ہونے کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ کارڈف میں پاکستانی کمیونٹی کے گھرانے برائے نام تھے اور انہیں روکنے ٹوکنے والا یہاں کوئی نہ تھا، وہ یہاں الگ تھلگ رہ کر من مانی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔بڑوں کی نصیحتوں سے بچنے کے لیے انہوں نے کارڈف کو اپنا ٹھکانہ بنایا ۔وہ کہنے کو تو بہترروزگار کے لیے برطانیہ آئے تھے لیکن روزگار کے علاوہ وہ گوروں کے دیس کی رنگینیوں کا مشاہدہ بھی کرنا چاہتے تھے ، ایسے ہی کسی موقع کی مناسبت سے اکبر الہ آبادی نے کہاتھا :
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
جب یعقوب کے والد کو فیصل آباد میں اپنے بیٹے کے” کارنامے” کا پتہ چلا تو انہوں نے یعقوب کو فوری طور پر فیصل آباد واپس بلا لیا، اس وقت یعقوب کے ہاں گوری بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہو چکی تھی جبکہ یاسین اور نذیر احمد کے والدین نے اپنے بیٹوں کی گوریوں سے شادیوں پر کوئی ایکشن نہ لیا۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ وطن واپسی کے بعد محمد یعقوب فیصل اباد میں” اخلاص اینڈ کمپنی” میں بطورآفیسر کام کرنے لگے۔ 1978 میں صرف 45سال کی عمر میں ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا نچلا دھڑ بری طرح متاثر ہو گیا۔ پھر سب کے مشورے سے وہ اپنے اہل خانہ سمیت دسمبر 1979 میں کارڈف واپس چلے گئے، محمد یعقوب کی باقی زندگی ویل چیئر پر گزری ،وہ انتہائی باہمت شخص تھے۔ ویل چیئر پر ہونے کے باوجود ان کی بول چال میں پرانا رعب و دبدبہ باقی رہا۔ انہوں نے وقت گزاری کے لیے اخباروں اور کتابوں سے دوستی کر لی ۔ انہوں نے طویل بیماری کا سامنا بڑے حوصلے سے کیا۔ان کا انتقال 2010 کے عشرے میں ہوا ۔ہم شام چھ بجے کارڈف پہنچے اورسب سے پہلے محمد یعقوب کے بیٹے احسن یعقوب کے پاس گئے۔ احسن پرتپاک طریقے سے ملا، وہ بہت وہ کٹر مذہبی آدمی ہے، فوٹو تک نہیں کھنچواتا ۔
ہم دو گھنٹے ان کے پاس بیٹھے، انہوں نے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔رات آٹھ بجے احسن یعقوب سے اجازت لے کے ہم اپنی ماموں زاد کے گھر گئے جو احسن کے گھر سے ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں ان کے بیٹے حسن سے بھی ملاقات ہوئی ۔حسن کے والد عبدالرشید پاکستان گئے ہوئے تھے ۔اس گھرانے سے میری 18 سال بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ ہم نے ماموں زاد بہن سے ان کے بھائی محمد انور اور ہمشیرہ کے انتقال پر اظہار افسوس کیا جو حال ہی میںپاکستان میں وفات پا گئے تھے ، اس موقع پر مجھے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ کی یاد آگئی جو 1965 میں پاکستان سے کارڈف آئے تھے۔ بعد میں انہوں نے اپنے والدحاجی محمد یوسف اور دیگر اہل خانہ سے رابطہ ختم کر لیا اور وہ تقریباً 10 برس لا پتہ رہے۔
1976میں گلاسگو سے مستقل طور پر پاکستان واپس آنے کے بعد میںدسمبر 1978 میں پہلی بار برطانیہ گیا ، سفر پر روانگی سے قبل میں ماموں حاجی یوسف سے ملنے کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں ”بھلیر” گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ برطانیہ جا کر میرے بیٹے عبد اللہ کو تلاش کرنا ۔میں جب برطانیہ پہنچا تو میں نے خوش قسمتی سے بھائی عبداللہ کو تلاش کر لیا جس کی تفصیل اگلی قسط میں پیش کی جائیگی
کارڈف میںہمارے میزبان رات رکنے پر ا صرار کرتے رہے لیکن ہم نے ان سے اجازت لی اور رات کے 10 بجے کارڈف سے روانہ ہوئے۔ اس موقع پر ایک اور حیران کن واقعہ پیش آیا کہ موٹروے پر جانے کے بجائے ہم غلط فہمی سے ایک اور سائن بورڈ دیکھ کر ایک سڑک پر مڑ گئے۔ یہ صرف 20 فٹ چوڑی سڑک تھی جو جس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے قصبات واقع تھے ۔کچھ دیر بعد ایک آدھ کار نظر آجاتی تھی۔ ہم موٹروے کا انتظار کرتے رہے کہ شاید یہ سڑک ہمیں موٹر وے سے ملا دے لیکن 200 میل تک موٹروے انٹر چینج نہ آیا اور ہم نے رات کی تاریکی میں200 میل کا سفر 20 فٹ چوڑی سڑک پر کیا اور رات کے اڑھائی بجے مانچسٹر پہنچے۔ ”کارڈف ” سے مانچسٹر جانے والی یہ سڑک چھوٹی تو تھی مگر کہیں سے بھی ٹوٹی ہوئی نہیں تھی ۔
سڑک بہت عمدہ حالت میں تھی ۔میرا خیال یہ ہے کہ یہ سڑک دانستہ طور پر اس لیے بنائی گئی ہے کہ جنگ کی صورت میں اگر موٹروے تباہ ہو جائے تو یہ سڑک کارڈف اور مانچسٹر میں رابطے کے لیے کام آئے۔ بھائی ادریس نے بھی میرے اس خیال کی تائید کی ۔سفر طویل تھا ، میں اپنے بھتیجے شعیب کے ساتھ ” کارڈف ”کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتا رہا ۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ کی تلاش میں 1979میں کارڈف آیاتھا ، پھر 1984میں سمندری روڈ پر واقع فیکٹری کا سودا طے کرنے کے لیے بھی میں نے اس شہر کا سفر کیاتھا اس طرح ”کارڈف ” سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں ۔(جاری ہے )