پردیس میں محنت کرنے والے اور ان کی تفریح

پانچ ہفتے برطانیہ میں

(قسط نمبر24)

تحریر: محمد اسلم

برمنگھم شہر سے لندن کا فاصلہ 118میل ہے۔12 جون کو ہم صبح نو بجے کار پر بلیک ہیتھ سے روانہ ہوئے اور پانچ میل کے فاصلے پر برمنگھم سے گزرے ۔ برمنگھم میں داخل ہوتے ہی مجھے 1968 کے وہ دن یاد آگئے جب میں بلیک ہیتھ میں کام کرتا تھا۔ میں ، میرا چھو ٹا بھائی محمداکرم اور ماموں زاد بھائی محمد مشتاق اتوار کی چھٹی کو برمنگھم جایا کرتے تھے جہاں چند سینما گھروں میں پاکستانی اور ہندوستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔ پردیس میں محنت مزدوری کرنیوالوں کے لیے یہ فلمیں تفریح کا بڑا ذریعہ تھیں۔ سینما گھروں میں بہت رش ہوتا تھا ۔کبھی کبھی پاکستانی فلمی ستاروں اور گلو کاروں محمد علی، زیبا، شمیم آرا، مہدی حسن، احمد رشدی اورر نگیلا وغیرہ کے شو بھی ہوتے تھے۔ ہم یہ شو بھی دیکھنے کے لیے جاتے تھے۔ ان دنوں برمنگھم میں انگلینڈ کی پہلی جامع مسجد تعمیر کی جا رہی تھی، یہ گنبد والی بڑی مسجد تھی، مسجد کے لیے چندے کے اعلانات بھی ہوتے رہتے تھے، اس سے پہلے لوگوں نے مکان خرید کر ان میں مساجد بنا رکھی تھیں ، برمنگھم میں جامع مسجد کی تعمیر مکمل ہونے میں کئی سال لگ گئے۔ میں تقریباً ایک سال برمنگھم کے علاقے بلیک ہیتھ میں رہا۔ اس دوران 1968میں برمنگھم میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تو میں کیمرہ لے کر ایجبسٹن گراؤنڈ پہنچا ، بڑے بھائی محمد ادریس بھی میرے ساتھ تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم کے کپتان کولن کاؤڈرے (COLIN COWDREY) تھے اور اسٹریلیا کی قیادت بوب سمپسن(BOB SIMPSON) کر رہے تھے۔ آسٹریلیا کی ٹیم میں مشہور کرکٹر بل لاری (BILL LAWRY)بھی شامل تھے۔ اس وقت تماشائیوں کو باؤنڈری کے رسے کے بالکل قریب بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ ٹیسٹ میچ پانچ روز جاری رہا لیکن میں ایک روز ہی میچ دیکھنے کے لیے گیا تھا ۔برمنگھم لوہے کے کارخانوں کی وجہ سے بھی مشہور تھا جہاں ہزاروں مزدور کام کرتے تھے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بھی اس زمانے میں برمنگھم کی پہچان تھے، ہر بجلی گھر کی بڑی بڑی چمنیاں تھیں ۔ بعد میں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے نے سر اٹھایا تو برطانوی حکومت نے 1990کے عشرے میں کوئلے کے بجلی گھر بند کر کے بجلی تیار کرنے کے دیگر ذرائع پر انحصار شروع کر دیا۔1960 کے عشرے میں برمنگھم شہر کی کل آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی جس میں سے کم و بیش 60 ہزار پاکستانی تھے، ہر جگہ پاکستانی نظر آتے تھے۔ میں اس بار 15سال کے بعد برمنگھم س شہرے گزرا، مجھے برمنگھم پہلے سے زیادہ ماڈرن شہر لگا ،شہر میں بڑی بڑی عمارتیں بن چکی ہیں ،پرانی یادیں تازہ کرتے ہم نے برمنگھم سے لندن کا رخ کیا۔

ہم موٹروے ایم ون کے ذریعے بر منگھم سے روانہ ہوئے۔ لندن کا علاقہ” ہارو ” (HARROW)ہماری منزل تھا جہاںافریقہ والی کمیونٹی کے دوست محمد خلیل ہمارے منتظر تھے۔ محمد خلیل میرے بڑے بھائی محمد ادریس کے ہم عمر اور بچپن کے دوست ہیں۔ محمد خلیل کے والد بابو عبدالعزیز 1933 میں لدھیانہ سے ایسٹ افریقہ کے ملک کینیا گئے اور وہاں ریلوے میں کام کرتے رہے، ان کے دادا اور دادی نے1941میں حج کیا ۔ قیام پاکستان کے بعد محمد خلیل کے دادا حاجی نور محمد نمبر دارہجرت کر کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 327گ ب بھلیر میں آباد ہوئے ۔بعد میں یہ پورا گھرانہ فیصل آباد منتقل ہو گیا ۔ بھلیرمیں اب بھی اس خاندان کی پانچ ایکڑ انتہائی قیمتی زمین ٹوبہ گوجرہ روڈ پر پرلب سڑک واقع ہے۔ محمد خلیل کے والد بابو عبدالعزیز1965 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستان آگئے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بجائے فیصل آبادمیں گلبرگ کے علاقہ میں آٹھ مرلے کا مکان 25ہزار روپے میں خریدا ۔ محمد خلیل اپنے والد کے ساتھ پاکستان نہیں آئے۔ وہ کینیا کے ہمسایہ ملک تنزانیہ میں ڈاک خانے میں جونیئر کلر کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔ جب افریقہ سے لوگوں کی بڑی تعداد نے برطانیہ کا رخ کیا تو وہ بھی مئی 1967 میں برطانیہ کے شہر برمنگھم چلے گئے۔ میں نے خلیل کو پہلی مرتبہ برمنگھم کے نواحی قصبے بلیک ہیتھ میںنومبر 1967 میں ہی دیکھا تھا ۔وہ بھی ہماری طرح” سٹیورٹ اینڈ لائیڈز ” (STEWART  AND LLOYDS)کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ وہ کرین ڈرائیور تھے۔ ایک روز محمد خلیل کو جانے کیا سوجھی؟ وہ اپنے ایک کزن محمد حبیب کو ساتھ لے کر پاکستان کی طرف چل پڑے، پاکستان پہنچنے کے لیے انہوں نے کار کی بجائے ریل گاڑی اور بسوں میں سفر کیا ، وہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے بار بار ٹرینیں اور بسیں بدلتے رہے ،برطانیہ سے جرمنی ، بلغاریہ ، ترکی ، ایران کے راستے کوئٹہ پہنچے ۔پھر وہاں سے فیصل آباد آگئے ۔ پاکستان میں ان کا قیام فیصل آباد کے محلہ گلبرگ میں رہا ۔انہوں نے یہاں شادی کی، سال ڈیڑھ سال قیام کیا اور پھربرطانیہ واپس پہنچنے کے بعد برمنگھم کے بجائے لندن کو اپنا مسکن بنا لیا۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے لندن ہی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے 25 سال الیکٹرانکس کی ایک فرم میں ملازمت کی ، پھر 1987 سے 2010 تک ٹیکسی چلائی، اب وہ ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں ۔میں جب بھی برطانیہ جاتا ہوں ،لندن آکر محمد خلیل سے ضرور ملاقات کرتا ہوں ۔ہم HARROWمیںمحمد خلیل کے گھر پہنچے، وہ بہت گرمجوشی سے ملے ،ان کے گھر والوں نے فٹافٹ کھانا لگا دیا، کھانے کے بعد باتیں ہونے لگیں۔ محمد خلیل بولے کہ میرا زیادہ وقت ٹی وی پر پاکستانی چینل دیکھنے میں صرف ہوتا ہے ۔ انہوں نے ہم سے پاکستان کے حالات دریافت کیے۔ برطانیہ میں مقیم دیگر تارکین وطن کی طرح وہ بھی پاکستان کے لیے بہت پریشان نظر آئے ۔

فیصل آباد میں میرے دوست حکیم نور الحق کی بیٹی اور داماد ایک عشرے سے لندن میں مقیم ہیں ۔ میں پاکستان سے روانہ ہوا تو حکیم نور الحق نے مجھ سے کہا تھاکہ میں لندن میں ان کی بیٹی اور داماد سے ضرور ملاقات کر کے ان کی خیریت معلوم کروں ۔ محمد خلیل کے گھر سے ہم انڈر گراؤنڈ ٹرین پر ایسٹ لندن پہنچے۔ ایسٹ لندن میں آبادی کی بڑی اکثریت ایشیائی لوگوں کی ہے ۔ پاکستانی اور ہندوستانی کمیونٹی کی آباد ی 50فیصد سے بھی زیادہ ہے، ہر طرف پاکستانی اور ہندوستانی دکا نیں نظر آرہی تھیں، کہیں مٹھائیاں اور کہیں پکوان فروخت ہو رہے تھے۔ایسٹ لندن میں کئی مساجد ہیں ، ہم نے کئی بچوں کو سروں پر ٹوپیاں اوڑھے مدارس سے نکلتے ہوئے دیکھا ۔مجھے یوں محسوس ہوا ،جیسے میں پاکستان ہی میں ہوں ۔ حکیم صاحب کے داماد زاہد اور ان کے بیٹے زین اور حارث ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے۔ ہم تین گھنٹے ان کے گھر میں رکے۔ انہوں نے پرتکلف کھانے کے ساتھ ہماری تواضع کی ۔ میں نے اس موقع پر پاکستان میں فون کر کے حکیم نور الحق سے بات کی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے ٹیکسی لی اور رات نو بجے ”ہارو”(HARROW)کے علاقے میں محمد خلیل کے گھر واپس پہنچے۔ محمد خلیل کے بھائی محمد شبیر کا گھر بھی نزدیک تھا ۔ محمد شبیر کی 40 سالہ بیٹی کا چھ ماہ قبل انتقال ہو گیا تھا ۔ ہم نے محمد شبیر سے اظہار تعزیت کیا جس کے بعد ہم محمد خلیل کے ہمرہ ان کے گھر واپس آگئے۔

(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *