لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کا میل جول

پانچ ہفتے برطانیہ میں

(قسط نمبر21)

تحریر: محمد اسلم

میرے والد محترم 1944 میں لدھیانہ سے مشرقی افریقہ کے ملک کینیا چلے گئے اور وہاں پر محکمہ ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔ میری پیدائش کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں کی ہے۔ اس زمانے میں لدھیانہ سے جاٹ برادری سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100 لوگ روزگار کے لیے کینیا میں رہتے تھے ،میرے تین ماموں اور کئی رشتہ دار بھی کینیا میں مقیم تھے۔ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی 11 سال نیروبی میں گزارے اور پرائمری تعلیم وہیں پائی۔ لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کا آپس میں بہت قریبی تعلق تھا ،پردیس میں دیس کے ماحول کا لطف لینے کے لیے ایک دوسرے کے گھر آ جانا رہتا تھا بالخصوص اتوار کے روز میلے کا سماں ہوتا۔ لدھیانہ کے ان گھرانوں کا یہ باہمی تعلق زندگی کا ایک اہم حصہ تھا ۔ ان گھرانوں کے بچے سکولوں میں اکٹھے پڑھتے ، اکٹھے کرکٹ کھیلتے، ایک ساتھ عید مناتے، آپس میں خوب باتیں ہوتیں، بچپن کی وہ خوب صورت یادیں آج بھی دل پر نقش ہیں ۔ ،نیروبی شہر میں 95فیصد ہندوستانی اور پاکستانی رہتے تھے ،کالے لوگ شہر کے باہر جھونپڑیاں بنا کر رہتے تھے ۔وہ دن کو ایشیائی لوگوں کے گھروں میں کام کر نیکے لیے شہر میں آتے تھے اور شام کو واپس چلے جاتے تھے ۔

اس دور میں کینیا پر انگریزوں کا راج تھا، پھر1950کے عشرے کے آخری سالوں میں کالوں نے انگریزوں کے خلاف”ماؤ، ماؤ” تحریک شروع کر دی تو کینیا میں مقیم ایشیائی کمیونٹی نے سوچا کہ کالوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد ممکن ہے کہ ان سے انتقا م لیا جائے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس وقت سے پہلے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ پاکستانی کمیونٹی کی بھی یہی سوچ تھی اسی لیے 1960 سے ہی کینیا سے لوگوں کی پاکستان واپسی شروع ہو گئی ۔ کینیا 12 دسمبر 1963 کو برطانیہ کے قبضے سے آزاد ہوا تو اس سے پہلے 95 فیصد ایشیائی لوگ کینیا سے نکل چکے تھے۔ لدھیانہ سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی کے لوگ پاکستان آگئے اور اکثر لوگوں نے فیصل اباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رہائش اختیار کی۔ خود ہمارا خاندان اپریل 1961 میں بحری جہاز کے ذریعے پاکستان پہنچا۔ ممباسا کی بندرگاہ سے شروع ہونے والا سفرآٹھ دن میں مکمل ہوا ۔

کینیا سے آنے والے ان گھرانوں کو پاکستان میں لوگ” افریقہ والے ”کہتے تھے۔ افریقہ والی اس کمیونٹی کے تقریباً تمام لوگوں کے پاس پاکستان اور برطانیہ دونوں ملکوں کی شہریت تھی یعنی دونوں ملکوں کے پاسپورٹ موجود تھے۔ میرے ماموں حاجی محمد یوسف جیسے چند لوگ ہی تھے جنہوں نے حب الوطنی کے جذبے سے مغلوب ہو کر برطانوی پاسپورٹ بنوانے سے انکار کر دیا تھا۔ 1967 میں برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ جن لوگوں کے پاس برطانوی پاسپورٹ موجود ہے وہ دسمبر 1967 سے پہلے پہلے برطانیہ آجائیں جس کے بعد کو ٹہ سسٹم نافذ کر دیا جائے گا ۔یہ اعلان ہوا تو افریقہ والوں کی کمیونٹی کے درجنوں نوجوان برطانیہ جا پہنچے۔ خود میں 17 برس کی عمر میں نومبر 1967 میں برطانیہ گیا ۔برطانیہ میں بھی یہ سب لوگ تقریباً ایک ہی جگہ آباد ہوئے اور برمنگھم سے نو میل دور ”بلیک ہیتھ ”(BLACK HEATH)کے علاقے کو اپنا ٹھکانہ بنایا جہاں لوہے اور سٹیل کے بہت سے کارخانے لگے ہوئے تھے، یہ سب لوگ فیکٹریوں میں ملازمت کرنے لگے۔ اس وقت تک لوگوں کی فیملیز ساتھ نہیں گئی تھیں۔ ایک کمرے میں چار چار، پانچ پانچ آدمی رہتے تھے، کوئی چارپائی پر سوتا تھاتو کسی نے میٹرس بچھا رکھا تھا۔ یہ لوگ ملازمت سے آنے کے بعد خود اپنے لیے کھانا بھی پکاتے ۔ وقت گزرتا گیا اور پھر کچھ گھرانے لندن ،کچھ مانچسٹر اور کچھ گلا سگو چلے گئے۔ ایک دو گھرانوں نے امریکہ کا بھی رخ کیا لیکن ان گھرانوں کی آ پس کی محبت اور پرخصوص تعلقات برقرار رہے اور ہم ایک دوسرے کی شادی غمی میں شرکت بھی کرتے رہے ۔

میں جب بھی پاکستا ن سے برطانیہ جاتا ہوں، افریقہ والوں کی کمیونٹی کے دوستوں سے ضرور ملاقات کرتا ہوں۔ اس مرتبہ میرا 10 سال کے بعد برطانیہ جانا ہوا تو میں نے بڑے بھائی محمد ادریس سے کہا کہ دوستوں سے ملنے کے لیے دو تین روز ضرور نکالنے ہیں اور مانچسٹر، بر منگھم ، لندن اور کارڈف جانا ہے ۔بھائی ادریس سفر کے بہت شوقین ہیں، انہوں نے فورا ہامی بھر لی ۔ ہم نے اپنے بھتیجے محمد شعیب کو بھی سفر کے لیے تیار کر لیااور طے پایا کہ ہم ایک روز مانچسٹر، دو روز برمنگھم، ایک روز لندن اور ایک روز کارڈف میں گزاریں گے۔

10 جون کو ہم گلا سگو سے روانہ ہوئے تو موسم خلاف معمول گرم تھا اور درجہ حرارت 23 سینٹی گریڈ تھا ،گلاسکو سے مانچسٹر کا فاصلہ 217 میل ہے، ہم موٹر وے کے ذریعے ایک بجے مانچسٹر پہنچے ا ور پہلا پڑا ؤبھائی عبدالرزاق کے گھر پر ڈالا ۔ہم نے پہلے ہی سے ان کو اپنی آمد سے آگاہ کر دیا تھا ،وہ بہت پرجوش طریقے سے ملے۔ ان کے بھائی عبدالسلام اور 88 سالہ والدہ بھی موجود تھیں۔ اس گھرانے سے میری جان پہچان 1957 میں کینیا میں ہوئی جب میری عمر صرف سات سال تھی۔ عبدالرزاق کی والدہ جنوری 1966 میں فیصل آباد سے برمنگھم آئی تھیں جہاں یہ گھرانہ سات سال رہا جس کے بعد یہ لوگ مانچسٹر شفٹ ہو گئے۔ اس خاندان نے بہت محنت کی ،سب اہل خانہ نے مل کر ”سلائی کا یونٹ ”لگایا، یہ لوگ خود ہی کپڑے کی کٹائی سلائی اور پریس کا کام کرتے تھے۔ یہ پینٹ، ٹراؤزر ،شرٹس اور سکرٹس وغیرہ تیار کرتے تھے۔ عبدالرزاق، عبدالسلام اور ان کی والدہ سے خوب باتیں ہوئیں۔ کینیا، پاکستان اور برطانیہ میں گزرنے والے وقت کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ عبدالرزاق کی والدہ نے بتایا کہ وہ اس وقت 88 برس کی ہیں اور سہارے سے چلتی ہیں، وہ اپنے مرحوم شوہر کی باتیں کرنے لگیں، ان کے شوہر چوہدری عبدالستار مارچ2022میں مانچسٹر میں وفات پا گئے تھے ۔۔ باتوں باتوں میں تین گھنٹے گزر گئے، ہم نے یادگار تصویریں بنائیں جس کے بعد چار بجے ہم نے ان سے رخصت لی۔

مانچسٹر میں افریقہ والی کمیونٹی کے کئی اور گھرانے بھی مقیم ہیں، وقت کم تھااس لیے سب سے ملاقات ممکن نہیں تھی ۔ہم نے عبدالشکور کے گھر کا رخ کیا جو بھائی عبد الرزاق کے گھر سے چند میل کے فاصلے پر ہے ۔ عبدالشکور کے والد محمد بخش 1938 میں کینیا گئے تھے۔کینیا کی آزادی سے پہلے انہوں نے اپنے بچوں کو 1961 میں پاکستان واپس بھیج دیا جہاں یہ گھرانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رہائش پذیر ہوا اور ان کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہی اراضی الاٹ ہوئی تھی۔1967 میں اس گھرانے نے برطانیہ کا رخ کیا۔ عبدالشکور اور ان کے والد مشہور صوفی بزرگ صوفی برکت علی لدھیانوی کے مرید ہیں ۔عبدالشکور کی دختر کی شادی میرے بھانجے زین الدین سے ہوئی ہے اس طرح ان سے ہماری رشتہ داری بھی ہے۔ انہوں نے چائے ،کیک، بسکٹ اور پیسٹری سے ہماری تواضع کی۔ سیاست پر بات چھڑی تو پتہ چلا کہ وہ میاں نواز شریف کے زبر دست سپورٹر ہیں جبکہ ان کے بیٹے عمران خان کے حامی ہیں۔ ان کی کئی باتوں پر طویل گفتگو ہو سکتی تھی میں نے ماحول خوشگوار رکھنے کے لیے بحث سے گریز کیا ۔ہم نے ایک گھنٹہ ان کے گھر میں گزارا ۔اس دوران افریقہ کے حبشیوں ،وہاں کے جنگلات اور شیر ، چیتوں پر باتیں ہوتی رہیں ، نیروبی میں لدھیانہ کمیونٹی کی خواتین کے گھروں میں اکٹھے بیٹھ کر سویاں اور بسکٹ تیار کرنے کے مناظر نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ نیروبی کے نیشنل پارک کی یادیں بھی تازہ کی گئیں، یہ پارک نیروبی شہر سے پانچ میل دور تھا جس میں شیر چیتے،زرافے اور دیگر جانور تھے۔ یہ پارک 200 میل کے رقبے پر بنایا گیا تھا جس کے چاروں طرف جنگلے لگا کر اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ کوئی جانور اس رقبے سے باہر نہ جانے پائے۔ گائیڈ سیاحوں کو جیپوں میں بٹھا کر کرایا وصول کر کے نیشنل پارک کی سیر کراتے تھے ،ہم نے بھی دو مرتبہ نیشنل پارک کی سیر کی ،یہ امر قابل ذکر ہے کہ گوروں نے تمام افریقی ممالک میں ایسے نیشنل پارک بنائے تھے۔ شام پانچ بجے ہم نے عبدالشکور سے اجازت لی اور کار پر سوار ہو کر مانچسٹر سے بر منگھم کا رخ کیا جو 85میل دور ہے۔ برمنگھم میں ہماری افریقہ والی کمیونٹی کے 30سے زائد گھرانے آباد ہیں۔

 (جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *