برطانیہ کے سیاستدان انس سرور سے ملاقات
پانچ ہفتے برطانیہ میں
(قسط نمبر19)
تحریر: محمد اسلم
برطانیہ کی چار مشہور سیاسی جماعتیں ہیں جن میں لیبر پارٹی، ٹوری پارٹی، لبرل پارٹی اور سکاٹش نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ صوبہ سکاٹ لینڈ میں سکاٹش نیشنل پارٹی برسر اقتدار ہے ،یہ پارٹی برطانیہ سے الگ ہونا چاہتی ہے اورسکاٹ لینڈ کیلئے آزادی مانگتی ہے ۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کے قائد ایک پاکستانی حمزہ یوسف ہیں جبکہ اس صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمد انس سرور بھی ایک پاکستانی ہیں ۔ انس سرور سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے فرزند ہیں ۔
7جون کو بدھ کا دن تھا ۔ میں اور میرے چھوٹے بھائی محمد افضل، انس سرور سے انٹرویو کے لیے ایڈنبرا جا رہے تھے ۔سکاٹ لینڈ کا دارالحکومت ایڈنبرا ،گلاسکو سے 50میل مشرق کی طرف واقع ہے ۔ ایڈنبرامیں ہی صوبائی اسمبلی کی بلڈنگ ہے۔ ہم نے 50 میل کا سفر موٹر وے کے ذریعے ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا اور پارلیمنٹ کے پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے۔ پارکنگ میں ہمیں 15 منٹ لگے جس کے بعد ہم ایک فرلانگ پیدل چل کرپارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ تک پہنچے ۔ اس بلڈنگ کی تعمیر 1995 میں شروع ہوئی تھی اور تکمیل کے بعد 2004 میں اس کا ا فتتاح ملکہ الزبتھ نے کیا تھا۔ باہر سے بلڈنگ کی شکل عجیب و غریب طریقے سے بنائی گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے کوئی کلچرل سنٹر ہے ۔ اندرسے یہ عمارت کئی منزلہ ہے اور جدید طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے ۔
محمد افضل نے انس سرور سے دو بجے کا وقت طے کیاتھا ۔ہم پونے دو بجے عمارت میں داخل ہوئے۔ داخلے سے قبل ہمیں سکیننگ کے ذریعے چیک کیاگیا ۔ پارلیمنٹ کے استقبالیہ پر دو تین افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے ان کو بتایا کہ ہمیں محمد انس سرور نے دو بجے کا ٹائم دیا ہے تو ریسپشن والوں نے ہمیں شناخت کے لیے ایک کارڈ دے دیا اور کہا کہ آپ بیٹھ جائیے، ہمیں بیٹھے ہوئے 10 منٹ ہوئے تھے کہ درازقد اور خوش شکل محمد انس سرور ملنے آگئے۔ میری یہ ان سے پہلی ملاقات تھی جبکہ میرے بھائی محمد افضل کی ان سے پرانی شناسائی ہے۔ افضل نے میرا تعارف کرایا تو وہ مجھے انکل کہہ کر مخاطب ہوئے اور بہت گرم جوشی سے ملے۔
دو چار منٹ گپ شپ کے بعد انس سرور ہمیں لے کر دوسری منزل کی طرف چل پڑے ۔ بالائی منزل پر جا کر انہوں نے ہمیں اپنے آفس کے پاس ایک جگہ پر بٹھایا اور چائے بنا کر خود پیش کی۔ا نٹرویو شروع ہواتو میں نے محمد انس سرور سے بہت سے سوالات کیے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میرے سوالات پر وہ ہمارے لیڈروں کی طرح کسی قسم کی پریشانی یا الجھن کا اظہار نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک نارمل اور فریش موڈ میں ہنس کر جواب دیتے رہے ،انہیں کوئی جلدی نہیں تھی ۔انس سرور نے بتایا کہ ان کے دادا چوہدری عبداللہ کا تعلق ضلع جالندھر کی تحصیل ”نکودر”کے ایک گاؤں ”فوجی سنگھ” سے تھا اور وہاں پر ان کی ایک مربع زرعی زمین تھی۔
چوہدری عبداللہ کے دوبھائی اور ایک بہن تھی اس طرح ان کا کنبہ چار افراد پر مشتمل تھا ۔ ان کے بڑے بھائی غلام محمد قیام پاکستان سے بہت پہلے1930 کے لگ بھگ بحری جہاز پر برطانیہ پہنچے اور گلاسکو سے 200میل شمال میں ایک چھوٹے سے قصبے LOSSIE MOUTH میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے پہلے پہل بطور PADLER کام کیا ۔ جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو وہ دکان داری کرنے لگے ۔ ان کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ بعد میں غلام محمد کی بیٹی کی شادی چوہدری محمد سرور سے ہوئی ۔
میں نے قیام پاکستان کے بعد اس گھرانے کی ہجرت کے بارے میں سوال کیا تو انس سرور نے بتایا کہ اس وقت ان کے دادا چوہدری عبداللہ کی عمر 27سال تھی ۔وہ اپنے والدین ، ایک بھائی ، بہن اور اہلیہ رشیدہ بیگم کے ہمراہ بیل گاڑیوں پر قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے اور لائل پور جڑانوالہ روڈ کے گاؤں ”روڈو”(RADDU)میں سکونت اختیار کی۔ یہ گاؤں” سائیں دی کھوئی” اڈہ کے نزدیک واقع ہے۔ چوہدری عبداللہ اور ان کے دو بھائیوں کو 22 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی ۔
انس سرور نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کی دادای کا نام رشیدہ بیگم تھا ، چوہدری عبداللہ اور رشیدہ بیگم کے گھر میں دو بیٹے محمد سرور، محمد رمضان اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ پانچوں بچے پاکستان میں پیدا ہوئیں ، یہ گھرانہ سائیں دی کھوئی سے 1957 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں 331 گ ب مخدومہ میں منتقل ہو ا ۔ چوہدری عبداللہ 1959میںاپنے بھائی غلام محمدکے کہنے پر برطانیہ آگئے ۔ انہوں نے یہ سفر بائی ایئر کیا ۔گلاسگو پہنچ کر انہوں نے بھی بطور پیڈلرڈور ٹو ڈور کام کرنا شروع کیا ، اس دوران انہوں نے گلاسگو کی مسجد میں حافظ نور محمد اور محمد اسلم نامی ایک شخص سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا ۔چوہدری عبداللہ نے 1974میں اپنی اہلیہ ، بیٹے محمد رمضان اور ایک بیٹی کو بھی گلاسگو بلا لیا۔(چوہدری محمد رمضان پرویز کا بدھ 27ستمبر کو انتقال ہو گیا ، وہ گلاسگو سے پاکستان آئے ہوئے تھے ، ان کا جسد خاکی نماز جنازہ کے بعد گلاسگو بھجوایا گیا اور تدفین گلاسگو میں ہی ہوئی )۔
انس سرور نے بتایا کہ ان کے والد چوہدری محمد سرور 8اگست1952 کو پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے فیصل آباد سے گریجویشن کیا ۔ 1974میں برطانیہ پہنچ کر چوہدری سرورنے اپنی عملی زندگی کا آغاز دکان داری سے کیا اور ساتھ ساتھ گلاسگو میں مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی بڑھ چڑھ کر کام کرنے لگے ۔ انہوں نے لوکل سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اورگلاسگو کے محلہ ”گوون ”(GOVAN)میں الیکشن لڑ کر 1987میں کونسلر منتخب ہوئے ، وہ 1992میں دوسری بار کونسلر بنے ، پھر 1997میں لیبر پارٹی کی طرف سے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو گئے۔وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے مسلمان تھے ۔انہوں نے دوسری بار 2001میں ا ور تیسری بار 2005میں بھی گلاسگو سنٹرل کے علاقے سے الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی۔ اس طرح انہوں نے کامیابیوں کی ہیٹرک مکمل کی ۔ چوہدری سرور نے 21جون 2007کو یہ اعلان کیاتھا کہ وہ 2010کے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے بلکہ اس وقت انہوں نے میرا(انس سرور کا)نام پیش کیا ۔
انس سرور نے بتایا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں ، وہ 14مارچ 1983 کو گلاسگو میں پیدا ہوئے ، ان کے دو بڑے بھائی اور ایک بڑی بہن ہے۔ ایک بھائی گلاسگومیںیونائیٹڈ کیش اینڈ کیری اور دوسر ابھائی جرمن فوڈ کمپنی کی فرنچائز چلاتا ہے۔ انس سرور 2010 میں گلاسگو سنٹرل کے حلقہ سے برطانوی پارلیمنٹ کا پہلی باررکن منتخب ہوئے۔ وہ2015تک لندن پارلیمنٹ کا ممبررہے۔
2015کے الیکشن میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے ALISON نامی شخص مقابلے میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہوں نے 2016 میں سکاٹ لینڈ پارلیمنٹ( صوبائی اسمبلی ) کا الیکشن لڑ ااور کامیاب ہوئے ۔ وہ2021 سے سکاٹ لینڈ کی لیبر پارٹی کے صدر ہیں اور اس وقت سکاٹ لینڈ کی صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔
انس سرور نے بتایا کہ وہ کوئی کاروبار نہیں کر تے اور سیاست کو پورا ٹائم دیتے ہیں ،ان کی شادی 2006میں گلاسگو میں فرحین اشرف سے ہوئی جو محمدشریف( گفٹو والے) کی نواسی ہیں ۔ان کے تین بیٹے ہیں۔ چوہدری سرور کی پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں انس سرور نے کہا کہ والد صاحب سے سیاسی بات چیت اور مشاورت تو ہوتی رہتی ہے مگر ہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی فیصلہ سازی میں مداخلت نہیں کرتا، وہ اپنے سیاسی فیصلے کرتے ہیں اور میں اپنے سیاسی فیصلے کرنے میں خود مختار ہوں۔ والد محترم چوہدری سرور بہت متحرک اور فعال شخصیت ہیں۔ وہ جب پاکستان واپس گئے تو وہ عوام کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان میں انہیں گورنر کا عہدہ تو ملا لیکن انہیں عملی سیاست میں متحرک کردار ادا نہیں کرنے دیا گیا بلکہ سائیڈ لائن کر دیا گیا ۔چوہدری سرور بہت صاف گو ہیں ان کے دل میں جو ہے ،وہ صاف کہہ دیتے ہیں۔
انس سرور سے گفتگو کے بعد ہم ان سے اجازت لے کر نیچے اترے اور پہلی منزل پر آئے تو نیچے ہال میں اسکاٹش اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ تقریباً 129 ممبران موجود تھے ۔ان میں وزیراعلی اور فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف بھی شامل تھے۔ دو دیگر ایشیائی ارکان اسمبلی بھی نظر آئے ۔گیلری میں بھی چند ایشیائی بیٹھے ہوئے تھے ۔ہم نے تقریبا 10منٹ اسمبلی کا اجلاس دیکھا جسکے بعد ہم سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترے اور تین بجے پارلیمنٹ کی بلڈنگ سے باہر آگئے۔میں نے باہر سے پارلیمنٹ بلڈنگ کی تصاویر لیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے سڑک پار500 سال پرانا محل تھا جس میں ایک زمانے میں ان محلوں میںسکاٹ لینڈ کے بادشاہ رہا کرتے تھے۔ہم نے ایڈ نبراشہر کی سیر کرنے کیلئے کار میں چکر لگایا ۔ایڈنبرا شہر کی عمارتیں پتھروں کی بنی ہوئی ہیں ۔ایڈنبرا شہر میںکچھ دیر گھومنے پھرنے کے بعد ہم نے گلاسگو کا رخ کیا ۔میں راستے میں سوچتا رہا کہ رجانہ کے نزدیکی گاؤں ”مخدومہ ”کے باسیوں کو اللہ تعالی نے بہت عزت دی اور وہ لندن کی پارلیمنٹ میں لوگوں کی نمائندگی کیلئے منتخب ہوتے رہے ۔
(جاری ہے )