دنیا کے بہترین فلاحی سسٹم کا حامل ملک

پانچ ہفتے برطانیہ میں

(قسط نمبر18)

تحریر: محمد اسلم

قارئین کرام جانتے ہی ہیں کہ برطانیہ چار صوبوں انگلینڈ ،سکاٹ لینڈ ،شمالی آئرلینڈ اور ویلزپر مشتمل ہے ۔

 انگلینڈ نے کئی صدیوں قبل دیگر تین صوبوں سکاٹ لینڈ ، شمالی آئر لینڈ اور ویلز پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا تھا اور چار صوبوں پر مشتمل وفاق کو برطانیہ کا نام دیا گیا۔ ان چاروں صوبوں کے لوگوں کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔ انگلینڈ کے لوگ تعلیم یافتہ اور بہتر انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔5 کروڑ 75لاکھ آبادی کا یہ ملک دنیا کا بہترین فلاحی سسٹم رکھتا ہے اور اپنے شہریوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرتا ہے ۔ سکاٹ لینڈکے رہنے والے انگلینڈ والوں کی نسبت بہت سادہ مزاج ہیں، سکاٹ لینڈکی آبادی 54لاکھ ہے ۔ یہاں کے شمالی علاقہ کو” ہائی لینڈ ”کہتے ہیں جہاں چھوٹی بڑی پہاڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں اور بے شمار جھیلیں بھی ہیں ۔برطانیہ کا سب سے بڑا پہاڑBEN NEVIS بھی یہیںہے جس کی اونچائی4ہزار فٹ ہے جبکہ پاکستان کے ”کے ٹو ” پہاڑکی اونچائی 28ہزار فٹ اور ”ماؤنٹ ایورسٹ ” کی اونچائی29ہزار فٹ ہے ۔ اسی طرح برطانیہ کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ”LOCH LOMOND ” بھی سکاٹ لینڈ میں ہے جس کی لمبائی26میل ہے ۔ ایک زمانے میں سکاٹش لوگ برطانیہ کی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوا کرتے تھے ۔تیسرا صوبہ شمالی آئرلینڈ ہے جس کی آبادی 19 لاکھ ہے ، یہاں کے رہنے والے لوگ تعمیراتی کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھاری ڈیل ڈول کے ہیں۔ ایک زمانے میں ان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ یہ موٹے دماغ کے ہوتے ہیں۔چوتھا صوبہ ویلز ہے۔ ویلز کے لوگوں کی زبان مختلف ہے، وہ اگرچہ انگلش بھی بولتے ہیں لیکن اپنی زبان بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہ لوگ بھی انگلینڈ والوں کی طرح قابل ہیں ۔ ویلز کی آبادی صرف31لاکھ ہے۔ میں 1967 سے دسمبر 1975 تک آٹھ برس برطانیہ میں رہا ۔ اس دوران میں نے سکاٹ لینڈ صرف چند شہروں ہی کی سیر کی جن میں ایڈنبرا ،AYER SHIREاور چندچھوٹے شہر شامل ہیں۔ اس مرتبہ جون 2023 میں ،میں 10 برس کے بعد برطانیہ جانا ہوا تو دل میں تھا کہ سوچا کہ سکاٹ لینڈ کے شمالی علاقہ جات ہائی لینڈ (HIGHLAND) کے ایک مشہور قصبے فورٹ ولیم کی سیاحت کروں گا۔میرے دوست رانا عاشق بھی اپنے بیٹے سے ملنے فیصل آباد سے سکاٹ لینڈ پہنچے ہوئے تھے ، رانا عاشق ناظم آباد کے رہنے والے ہیں ،میں نے اس سفر میں رانا عاشق اور اپنے دو بھتیجوں محمد شعیب اور محمد عرفان کو اپنا ہمسفر بنا لیا۔

محمد شعیب اپنی کار پرعرفان اور میرے دوست رانا عاشق کو ساتھ لے کر گلاسگو میںمیرے بھتیجے فاروق کے گھر پہنچا جہاں سے ہم نے صبح آٹھ بجے اپنے سفر کا اغاز کیا ۔ہم گلا سگوشہر سے 20 میل دور پہنچے تو برطانیہ کی سب سے بڑی جھیل ”LOCH LOMOND ”شروع ہو گئی۔ یہ سڑک شمال کی طرف جاتی ہے۔ گلاسگو میں سات سالہ قیام کے دوران میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ جھیل کہیں بہت دور ہوگی ، میرے لیے یہ انکشاف حیرت انگیز تھا کہ ”LOCH LOMOND ”تو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ گلاسگو کے دروازے پر ہی کھڑی ہوئی ہے ۔ میں نے یہ جھیل پہلی مرتبہ دیکھی۔ جھیل 23 میل لمبی ہے ،اس کی چوڑائی ایک سے دو فرلانگ ہے اور گہرائی اوسطاً 37میٹر ہے۔ (پاکستان کی سب سے بڑی جھیل منچھر جھیل ہے جس کی لمبائی 15میل ہے)۔

”LOCH LOMOND ” جھیل کی دوسری طرف پہاڑی سلسلہ ہے ،پہاڑ دو ہزار فٹ سے اونچے ہیں ہم ”LOCH LOMOND ”کے نظارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔موسم خوشگوار تھا، درجہ حرارت 24 سینٹی گریڈ اور دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔ محمد شعیب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ا ز راہ تفنن کہا کہ جب سے آپ برطانیہ آئے ہیں، مسلسل دھوپ نکل رہی ہے ۔

ہم جھیل LOCK MOND کے ساتھ ساتھ چلتے رہے اور جھیل سے 20 میل آگے یعنی گلاسگو سے 40 میل دور پہنچ کر ایک جگہ رکے جہاں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دو تین سو سیاح گھوم پھر رہے تھے۔ یہ سیاح بذریعہ سٹیمر جھیل کی سیر بھی کر رہے تھے۔ سیا حوں میں انڈیا ، جمیکا اور انڈونیشیا کے لوگ شامل تھے۔ ”LOCH LOMOND ”صاف اور میٹھے پانی کی جھیل ہے ۔جھیل کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی اور حیرت ہوئی کہتے ہیں کہ اس میں SALMONور دیگر اعلی اقسام کی مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ہم ایک گھنٹہ وہاں ٹھہرے ہم نے کچھ تصاویر اتاریں، تھوڑا بہت کھایا پیا اور دوبارہ چل پڑے۔

اب ہماری منزل فوٹ ولیم کا قصبہ تھا جو گلاسگو سے107میل اور جھیل سے67میل کے فاصلے پر ہے ۔ فورٹ ولیم 1970   سے ہی میری یادداشت میں موجود ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے ایک جاننے والے(جن کا تعلق چیچہ وطنی سے تھا ) چوہدری کرم الہی کے ایک عزیز مولوی غلام محمد فورٹ ولیم میں رہتے تھے۔مولوی غلام محمد کی ان دنوں FISH AND CHIPS کی دکان تھی ۔وہ بتایا کرتے تھے کہ فورٹ ولیم میں ان کے علاوہ دو اور پاکستانی بھی رہتے تھے۔میرے ذہن میں یہ تصور تھا کہ کوئی تنگ سی سڑک ہوگی جو مسلسل چڑھائی کی طرف جا رہی ہوگی اور پھر وہاں پر بہت بڑا قلعہ ہو گا جسے فورٹ ولیم کہتے ہوں گے لیکن جب میں فورٹ ولیم تک پہنچا تو میرا یہ تصوراتی خاکہ پاش پاش ہو گیا۔ پتہ چلا کہ اس قصبے کی آبادی صرف 10ہزار ہے ۔یہاں پر آج سے200سال پہلے ایک کرنل ولیم نے 2ایکڑ جگہ پر چند ”فوجی بیرکس” بنائی تھیں جن کے ارد گرد لکڑی کی چار دیواری کی گئی تھی ۔اس نسبت سے اس جگہ کو ”فورٹ ولیم ” کہاجانے لگا اور ہمارے جیسے انجان یہ سمجھ بیٹھے کہ یہاں واقعی کوئی قلعہ ہے ۔ شعیب نے وافر مقدار میں کولڈ ڈرنکس ، بسکٹ، خشک میوہ جات اور نمکو کا بندوبست کیاتھا جو دوران سفر ہم کھاتے پیتے رہے ،سفر بہت پر لطف سفر تھا۔سڑک اگرچہ موٹروے نہ تھی لیکن سڑک بہت عمدگی سے کارپیٹڈ تھی، یہ کہیں 20 فٹ اور کہیں 25 فٹ چوڑی تھی، درمیان میں ڈیوائڈر نہ تھا ۔راستے میں سڑک کسی پہاڑی سلسلے پر چڑھی اور نہ اتری، بالکل سیدھی سڑک تھی۔ گلاسگو سے فورٹ ولیم تک 107 میل کا سفر پونے تین گھنٹے کا تھا لیکن ہم جھیل پر ایک گھنٹہ رکے تھے اس لیے ہمیں فورٹ ولیم پہنچنے میں چار گھنٹے لگ گئے۔ ہم نے پہلے شہر میں پھرنے کے بجائے اس مقام کی طرف جانے کا فیصلہ کیا جہاں کیبل کار کا انتظام تھا ۔

کیبل کار فورٹ ولیم قصبے سے سات میل آگے چلتی ہے،مری کی طرح 60 عدد چیئرز چلتی ہیں۔ سیاحوں کی آمدورفت جاری تھی لیکن قطاریں نہیں لگی ہوئی تھیں۔ ہمارے آگے تقریبا  30 افراد تھے۔ اس علاقے کو NAVIS RANGEکہتے ہیں ۔ چیئر لفٹ کاٹکٹ 25پونڈکاتھا ،ہم نے پہاڑ پر کیبل کا سفر 15 منٹ تک کیا ۔ یہ ایک شاندار تجربہ تھا ۔ موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ وہاںدرجہ حرارت 19 سینٹی گریڈ تھا ۔ چیئر لفٹ غالبا 650 میٹر کی بلندی پر جا رہی تھی ، مجھے بہت اچھا لگا، چیئر لفٹ سے دیکھا تو شہر ایک کھلی وادی جیسا محسوس ہوا،سارے پہاڑ سرسبز لگے اور درختوں کے سلسلے بھی نظر آئے۔ فورٹ ولیم شہر کے پاس بھی ایک اور جھیل ہے (یہ پہلی جھیل سے علیحدہ ہے )۔ یہ جھیل چار میل لمبی ہے، اس کا پانی بھی میٹھا ہے،یہ جھیل سمندر میں جا کر گرتی ہے، سمندر فورٹ ولیم شہر کے باہر کی حدود تک آتا ہے ۔

ہم پہاڑ پر پہنچ کرچیئر لفٹ سے اترے تو وہاں تقریبا 200 لوگ موجود تھے۔ زیادہ تر لوگ انگلینڈ ہی سے آئے ہوئے تھے۔ بھتیجے عرفان نے کہا کہ سامنے پہاڑکی چوٹی ہے، ہم وہاں چڑھ کر شہر کا نظارہ کرتے ہیں ۔میرے دوست رانا عاشق تمباکو نوشی کرتے ہیں جس کے اثرات ان کی صحت پر بھی مرتب ہوئے ہیں، انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ مجھ سے اتنا چلا نہیں جائے گا، سانس پھول جائے گی ۔میں نے عرفان سے کہا کہ انشااللہ ہم ضرور وہاں جائیں گے ۔کیبل کار کے اسٹیشن سے پہاڑکی چوٹی ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے ساری وادی نظر اتی ہے ۔ہم نے ہمت کی اور پیدل چل پڑے۔پندرہ ،بیس منٹ کے بعد ہم پہاڑی کی چوٹی پر جا پہنچے، اس پہاڑی کے ساتھ ہی برطانیہ کا سب سے بڑا پہاڑ BEN NEVIS ہے ،سکاٹ لینڈ کی مقامی زبان میں پہاڑ کو ” BEN”کہتے ہیں جبکہ  NEVIS اس پہاڑ کانام ہے ۔اس پہاڑ کی بلندی4400 فٹ ہے جبکہ اللہ نے ہمیں” کے ٹو” جیسا پہاڑ دیا ہے جس کی بلندی28ہزار فٹ ہے ۔وہاں پرہمارے علاوہ تقریبا 30 اور لوگ بھی پہاڑ ی کی چوٹی پر چڑھے ہوئے تھے ، شہر کی طرف دیکھا تو انتہائی دل فریب منظر نظر آیا ۔شہر ، جھیل اور پہاڑی سلسلے ،سب کچھ ہمارے سامنا تھا ۔ہوا چل رہی تھی ۔ہم نے چاکلیٹ اور پانی کی بوتلیں ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ کچھ دیرکے بعد ہم نیچے اتر آئے اور دوبارہ رانا عاشق کے پاس پہنچے جوکیبل کار کے سٹیشن پر نیچے اترنے کے لیے ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔

(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *