کتاب شائع کریں تو مجھے ضرور بھجوائیے گا

پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 15)

تحریر: محمد اسلم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قسط 14 میں سکاٹ لینڈ کے قصبے”ایئر ڈری ”(AIRDRIE) میں مقیم اسماعیل اشرف سے چیف ایڈیٹر محمد اسلم کی ملاقات کی تفصیل شائع کی گئی تھی ۔ 94سالہ اسماعیل اشرف اس قسط کی اشاعت کے چند روز بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔چیف ایڈیٹر کی اسماعیل اشرف سے ملاقات کا باقی احوال آج اس دعا کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔ ( ادارہ)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 اسماعیل اشرف نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد عطا محمداشرف بہت مذہبی آدمی تھے ۔ گلاسگو میں ایک مسلمان نے انہیں دو کمرے کرائے پر لے کر دیے۔ انہوں نے ایک کمرے میں کچن بنایا اور دوسرے کمرے میں رہائش اختیار کی ۔انہوں نے یہ کمرے گوربل محلہ(GORBOLS) میں لیے تھے۔ عطا محمد اشرف نے پہلا جمعہ اپنے گھر میں ہی پڑھایا، نماز کے بعد انہوں نے اپنی جیب سے اور ساتھیوں کی مدد سے چند پونڈ مسجد بنانے کے لیے وصول کیے۔ ان کے ایک ساتھی حنیف محمد تھے جنہوں نے ان کا بہت ساتھ دیا، بعد میں حنیف محمد نے ایک گوری نرس سے شادی کر لی۔ ان کا انتقال 1990 میں ہوا ۔اسماعیل اشرف کے والد عطا محمد اشرف اور حنیف محمد نے کئی سالوں بعدبڑی محنت سے مسجد کے لیے آکسفورڈ سٹریٹ میں دوسری منزل پر کمرہ کرائے پر لیا تھاتاکہ مسلمان نماز پڑھ سکیں اس کمرے کے نیچے ملاحوں کا کلب تھا اور یہاں فلمیں وغیرہ چلتی تھیں۔

 اسماعیل اشرف کے بھائی ابراہیم ان سے پہلے ہی گلاسگو جاچکے تھے انہوں نے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔برطانیہ آنے کے بعد انہوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور پی ایچ ڈی کی ۔اسماعیل اشرف 1949میں برطانیہ آئے تو شروع ہی سے ان کا ارادہ یہاں مستقل قیام کا تھا۔ وہ کراچی سے ہوائی جہاز پر سوار ہوئے۔ یہ کسی غیر ملکی کمپنی کا ہوائی جہاز تھا۔ اس وقت گلاسگو ایئرپورٹ نہیں بنا تھا۔ وہ گلاسگو سے15میل دور PRESTUWICKایئرپورٹ پر اترے ۔ ان کے والد نے نور محمد ٹانڈا کے ساتھ مل کر ویئر ہاؤس بنا رکھا تھا اور یہ لوگ پیڈلرز کو مال دیتے تھے۔ عطا محمد شرف نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے والد کے ویئر ہاؤس میں کام کرنے کے بجائے بطور پیڈلر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ سامان سوٹ کیس میں ڈالتے اور نوا حی قصبوں میں نکل جاتے۔ یہ کام بہت مشکل تھا۔ 1949میں گلاسکو میں 100 کے لگ بھگ پاکستانی رہتے تھے۔ زیادہ تر پاکستانیوں کی رہائش گوربل(GORBOLS) محلہ میں تھی۔ پاکستانیوں کے علاوہ وہاں ایک دو بنگالی بھی رہتے تھے ایک بنگالی ریسٹورنٹ چلاتا تھا اور ایک ملازم تھا۔ ایک عربی کی رہائش بھی گلا سگومیں تھی۔1949میں100پاکستانیوں میں سے صرف چار یا پانچ کی فیملی ان کے ساتھ رہتی تھی۔

اسماعیل اشرف نے بتایا کہ وہ پہلی بار 1953 میں گلا سگوسے پاکستان آئے اور یہاں ان کی شادی اپنی ارائیں برادری میں ہی” امیر اختر” کے ساتھ ہوئی۔ وہ چھ مہینے پاکستان رہے اور 1954 میں اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر بائی ایئر گلاسگو واپس آگئے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ 75 برسوں میں تقریباً 25 مرتبہ پاکستان جاچکے ہیں۔ آخری مرتبہ انہوں نے 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ان کی والدہ کا نام سارہ تھا جن کا انتقال 1994میں ہو ا۔ وہ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے پاکستان گئے تھے۔ اسماعیل اشرف نے میرے ایک سوال کا جواب میں بتایا کہ انہوں نے ساری عمر اپنے کام سے کام رکھا اور سماجی سرگرمیوں میں بہت کم حصہ لیا چنانچہ انہوں نے ملکہ الزبتھ کو دیکھا اور نہ ہی کسی برطانوی وزیراعظم کو دیکھا ۔1966 میں وہ گلاسگوچھوڑ کر’ایئر ڈری ”(AIRDRIE) کے قصبے میں چلے گئے۔انہوں نے ‘ایئر ڈری ”(AIRDRIE) میں دکان بنائی اور رہائش بھی رکھی۔ ان کی اہلیہ امیر اختر کا 1996میں انتقال ہوا جبکہ ان کے والد عطا محمد اشرف 1998میں وفات پا گئے ۔ اسماعیل اشرف کے بھائی ابراہیم کا 2012 میں گلاسگو میں انتقال ہوا۔اسماعیل اشرف نے بتایا کہ گلاسگو کی ہرلعزیز شخصیت فتح محمد شرف کو ان کے والد نے ہی1927میں گلاسگو بلایا تھا۔ فتح محمد شرف نے بھی پہلے پیڈلر کا کام کیا۔ اسماعیل اشرف نے بتایا کہ انہوں نے حج یا عمرہ نہیں کیا تومیرے بھائی ادریس نے ان سے کہا کہ آپ حج پر ضرور جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب تو میں بہت بوڑھا ہو گیا ہوں ،حج پر جانا مشکل ہے۔ وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ آپ کیا ان معلومات پر مبنی کتاب چھاپیں گے، اگر آپ کتاب شائع کریں تو مجھے ضرور بھجوائیے گا ۔ 94سالہ اسماعیل اشرف بھاری جسم اور درمیانے قد کے مالک ہیں، ان کا گول مٹول چہرہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے تین بیٹوں پرویز، جاوید اور نوید میں سے نوید کا انتقال ہو چکا ہے۔ ایک بیٹا جاوید ان کے ساتھ رہتا ہے جبکہ پرویزالگ مکان پہ رہتا ہے۔اسماعیل اشرف دھیمے مزاج کے بہت اچھے آدمی ہیں۔ضعیف العمری کے باوجود وہ ابھی تک چلتے پھرتے ہیں۔ ان سے انٹرویو کے دوران ان کے بیٹے جاوید نے بہت تعاون کیا۔

(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *